1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طالبان اب ٹوئٹر پر

15 مئی 2011

بارہ مئی دو ہزار ایک کو طالبان نے سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک پیغام شائع کیا۔ گو کہ طالبان ابلاغ کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال پہلے بھی کرتے رہے ہیں تاہم سوشل نیٹورکنگ سائٹس پر ان کی موجودگی خاصی نئی ہے۔

https://p.dw.com/p/11GL0

افغانستان میں اپنے دورِ حکومت میں طالبان نے ٹی وی، موسیقی، سنیما اور انٹرٹینمنٹ کے دیگر ذرائع پر پابندی عائد کر دی تھی۔ گانے والوں اور اداکاروں کو کوڑے لگائے جاتے تھے، وڈیو ٹیپس بیچنے والوں کو سزا دی جاتی تھی۔ رقص و سرور کی محفلوں پر قدغن لگا دی گئی تھی۔ اب یہی طالبان سوشل میڈیا کا استعمال کر رہے ہیں۔

ٹوئٹر پر یہ پیغام عموماً انگریزی ذبان میں ’ٹوئیٹ‘ کیے جاتے ہیں۔ عام تاثر یہی ہے کہ طالبان کو انگریزی سے بھی نفرت ہے، یا انگریزی کو اسلامی انتہا پسند کفّار کی زبان سمجھتے ہیں۔ طالبان کے اس عمل سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ ابلاغ اور پروپگینڈا کے لیے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔ سوشل نیٹورکنگ بہر حال طالبان کے لیے ایک نئی چیز ہے۔ ویب سائٹس، تصویری اور صوتی پیغامات کا استعمال تو وہ کرتے رہے ہیں۔

Taliban Afghanistan Flash-Galerie
جدید ٹیکنالوجی کو مغربی ٹیکنالوجی کہنے والے طالبان اس کا استعمال کرنے سے گریز بھی نہیں کرتےتصویر: DW

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے طالبان کے بجائے اسلامی افغانستان امارات کا نام استعمال کرتے ہوئے اس بارے میں کہا: ’ اسلامی افغانستان امارات نے چھ ماہ قبل ٹوئٹر کا استعمال کرنا شروع کیا۔ ہم نے ایسا اس لیے کیا کہ ہم جانتے ہیں کہ ٹوئٹر مغرب میں بہت مقبول ہے اور ہم اپنی آواز مغربی ممالک تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ اب تک مغربی ممالک میں رہنے والے ہمارے بارے میں صرف ایک کی خبریں سنتے ہیں، تاہم اب ان کو حقیقت کا علم ہو جائے گا۔‘

مجاہد کے مطابق فیس بک پر طالبان کا آفیشل پیج کمپنی نے اس برس کے آغاز میں بند کردیا تھا، تاہم ان کے حامی اپنے زاتی اکاؤنٹس سے طالبان نظریے کی ترویج کرتے رہتے ہیں۔ مجاہد کا یہ بھی کہنا تھا کہ طالبان جدید ٹیکنالوجی کو ’اللہ کی ایک نعمت‘ سمجھتے ہیں۔

طالبان ٹوئٹر پر بہت سے پیغامات پشتو زبان میں بھی بھیجتے ہیں۔ ٹوئٹر پر طالبان کے چار ہزار دو سو افراد ’فالوئرز‘ ہیں۔ حیرت انگیز طور پر طالبان ٹوئٹر پر خود برطانوی افواج کے ایک خیراتی ادارے کے ’فالوئر‘ بھی ہیں۔

رپورٹ: شامل شمس⁄ خبر رساں ادارے

ادارت: عصمس جبیں