پاکستان کے شمال مغربی علاقوں میں فوجی کارروائیاں
13 جولائی 2009سیکیورٹی اہلکاروں کے مطابق ملکی فضائیہ کے جنگی طیاروں نے اتوار کو جنوبی وزیرستان میں طالبان کے رہنما بیت اللہ محسود کے مبینہ ٹھکانوں پر بمباری کی جس کے نتیجے میں آٹھ عسکریت پسند ہلاک ہوئے۔ جنوبی وزیرستان میں یہ حملے پاکستانی فوج کی جانب سے بیت اللہ محسود کے خلاف حتمی آپریشن کی تیاریوں کا حصہ قرار دئے جارہے ہیں۔
افغانستان کی سرحد کے ساتھ جنوبی وزیرستان کا علاقہ پاکستانی طالبان کے سربراہ بیت اللہ محسود کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے جو ملک میں دہشت گردی کے متعدد حالیہ واقعات کی ذمہ داری قبول کر چکے ہیں۔ اسلام آباد حکومت نے محسود کے سر کی قیمت پانچ ملین ڈالر مقرر کر رکھی ہے۔
دریں اثنا لوئردیر کے علاقے کشمور میں بھی فوجی کارروائیوں کے دوران پانچ طالبان مارے گئے ہیں۔ ضلعی حکومت کے ایک اہلکار غلام محمد نے خبررساں ادارے AFP کو بتایا کہ کشمور میں طالبان کے دو ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ اس دوران پانچ شدت پسند زخمی بھی ہوئے۔
پاکستانی فوج کے ایک اعلامئے کے مطابق وادی سوات میں بھی ایک عسکریت پسند مارا گیا ہے جبکہ ایک اور کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس علاقے میں طالبان کے پانچ ٹھکانے بھی تباہ کر دئے گئے۔ فوج کا کہنا ہے کہ سوات کے دیگر علاقوں میں کارروائیوں کے دوران مزید 15 شدت پسندوں کو گرفتار کر لیا گیا جبکہ ملکی فوج کے سات ارکان زخمی ہوئے۔
فوجی اعلامئے کے مطابق جنوبی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کےساتھ فائرنگ کے تبادلے میں ایک فوجی جاں بحق ہو گیا جبکہ دو فوجی ڈیرہ اسمٰعیل خان میں ایک مسجد میں ہونے والے بم دھماکے میں ہلاک ہوگئے۔
پاکستانی فوج نے اپریل میں ملک کے شمال مغربی اضلاع سوات، بونیر اور لوئر دیر میں طالبان عسکریت پسندوں کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن شروع کیا تھا۔ گذشتہ ہفتے فوج نے اعلان کیا تھا کہ ان علاقوں میں آپریشن تقریبا ختم ہو چکا ہے۔ تاہم ان علاقوں میں آپریشن کے باعث لاکھوں افراد نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوگئے تھے جن میں سے بیشتر آج پیر سے اپنے گھروں کو لوٹ رہے ہیں۔
حکومت اپنے گھروں کو لوٹنے والے مہاجرین کو ٹرانسپورٹ اور سیکیورٹی بھی فراہم کر رہی ہے جس کا مقصد ان علاقوں میں اپنے گھروں کو واپس جانے والے شہریوں کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ فی الحال ان مہاجرین کو اس بات پر مجبور نہیں کیا جانا چاہیے کہ وہ فوری طور پر اپنے گھروں کو لوٹ جائیں۔