1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں’سیاسی ڈیل کلچر‘ کا فروغ اور دم توڑتی جمہوریت

24 اکتوبر 2023

سیاسی جماعتوں اور اسٹیبلشمنٹ کے گٹھ جوڑ نے عوام کی جمہوری عمل میں شرکت اور انتخابی عمل کو ایک رسمی کارروائی بنا دیا ہے۔ سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو مقتدر حلقوں کے بجائے عوام کے ساتھ ڈیل کرنی ہو گی۔

https://p.dw.com/p/4XxXp
Bildkombo Pakistan | Armeechef Syed Asim Munir Ahmed Shah und Ex-Premier Nawaz Sharif
تصویر: AP Photo/picture alliance

پاکستان میں گزشتہ چند ماہ کے دوران سیاسی منظر نامے پر تواتر سے ہونے والی تبدیلیوں نے اس تاثر کی تصدیق کر دی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی مضبوط گرفت میں جکڑی ہوئی سیاسی جماعتیں اپنی کمزوریوں کے سبب عوام سے رجوع کرنے کی بجائے انتخابی کامیابی کے لیے ایک مرتبہ پھر مقتدر حلقوں کی جانب دیکھ رہی ہیں۔

نو مئی کے پر تشدد احتجاج کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی گرفتاری، ان کی جماعت کے دیگر رہنماؤں اور کارکنوں کے خلاف تا حال جاری سخت ترین کریک ڈاؤن اور اب ان کی حریف جماعت مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف  کی وطن واپسی وہ چند انتہائی واضح مثالیں ہیں، جن کی بنیاد پر سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں آئندہ بھی اقتدار کا ہما اسی کے سر بٹھایا جائے گا، جو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اس کی مرضی کی ڈیل کر لے۔

نواز شریف کی واپسی، پاکستان کے لیے خوشحالی کا ایک نیا دور؟

’ڈرائنگ روم سیاست‘ کا فروغ

سیاسی امور کے تجزیہ کار جاوید فاروقی نے ڈی ڈبلیوسے  بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار ماضی کی نسبت کافی مظبوط اور واضح  نظر آنے لگا ہے۔  انہوں نے کہا، ''سیاسی جماعتیں سمجھتی ہیں کہ اقتدار میں آنے کے لیے صرف عوام کی حمایت کافی نہیں ہے۔ اس لیے تقریباﹰ ساری بڑی سیاسی جماعتیں اسٹیبلشمنٹ  کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کی متمنی رہتی ہیں۔‘‘

جاوید فاروقی کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتوں کا عوام کی بجائے اسٹیبلشمنٹ پر انحصار کرنے کا نقصان یہ  ہے کہ سیاسی جماعتیں آسانی کی عادی ہوتی جا رہی ہیں اور اپنی پارٹیوں کو گراس روٹ لیول پر منظم کرنے، عوام کے ساتھ باقاعدہ اور موثر رابطہ رکھنے اور منصفانہ طور پر پارٹی الیکشن کروانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتیں۔

 ان کے خیال میں پاکستان میں 'ڈیل کلچر‘ ڈرائنگ روم کی سیاست کو پروان چڑھاتا ہے۔ جاوید فاروقی کے بقول سیاسی جماعتوں کو محنت کیے اور بھاگ دوڑ کے بغیر ہی حکومت 'مینج‘ کرکے دے دی جاتی ہے، ''ایک تاثر یہ بھی ہے کہ بعض اوقات سیاسی جماعتیں عوامی قوت کا مظاہرہ بھی عموماﹰ اس لیے کرتی ہیں تاکہ اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ ڈالا جا سکے کہ وہ ان کے ساتھ ڈیل کر لے۔‘‘

نواز شریف پر 'ڈیل‘ کا الزام

کچھ عرصہ پہلے پاکستان پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری کے صوبہ سندھ کے طوفانی دورے اور ان کے والد  آصف زرداری کے پنجاب میں ڈیرے کچھ ایسے ہی عزائم کے آئینہ دار بتائے جاتے ہیں۔ پاکستان میں حالیہ دنوں میں ڈیل کی بحث اس وقت شروع ہوئی جب ملک کی دو بڑی جماعتوں پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی نے الزام لگایا کہ میاں نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ڈیل کرکے پاکستان آئے ہیں۔

Pakistan Lahore | Ehemaliger Premierminister Pakistans Nawaz Sharif
نواز شریف خود ساختہ جلا وطنی ختم کر کے اکیس اکتوبر کو لندن سے پاکستان پہنچے تھےتصویر: Ali Kaifee/DW

نواز شریف کیا ڈیل کرکے پاکستان آئے ہیں اس کی تفصیلات تو ابھی کسی کو معلوم نہیں البتہ جس طریقے سے پاکستان مسلم لیگ نون کی مرضی کی نگران حکومت بنی، نون لیگی رہنماؤں کے مقدمات ختم ہوئے، جس طرح نواز شریف کو اسلام آباد ہائی کورٹ سے حفاظتی ضمانت ملی، جس طرح احتساب عدالت نے ان کے وارنٹ معطل کرتے ہوئے وطن واپسی پر انہیں گرفتار کرنے سے روکا، نیب نے عدالت میں حیران کن طور پر ان کی مخالفت نہیں کی، ان کے بائیو میٹرک کے لیے نادرا کا عملہ ایئرپورٹ پہنچا، ان کے لیے لاہور میں ہیلی پیڈ بنوائے گئے۔

 اعلی پولیس افسروں نے سرکاری پروٹوکول کے ساتھ ان کا استقبال کیا۔ ان کے لیے جس طرح کے حفاظتی انتظامات کیے گئے۔ ان سب سے اس تاثر کو تقویت ملی کہ وہ طاقتور حلقوں کے ساتھ معاملات طے کرکے ملک واپس لوٹے ہیں۔ جاوید فاروقی نے یاد دلایا کہ بے نظیر بھٹو جب ملک واپس آئیں تھی تو انہیں سانحہ کارساز کا سامنا کرنا پڑا تھا، ''لیکن نواز شریف کی آمد پر جو ماحول ہم نے دیکھا اس سے لگتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔‘‘

الیکشن یا رسمی کارروائی؟

بعض سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ اس ڈیل کلچر کی بہت سی مثالیں سمیٹے ہوئے ہے۔ بینظیر بھٹو، آصف زرداری، نواز شریف، شہباز شریف، عمران خان ، پرویز الہی سمیت بہت سے سیاست دانوں نے کبھی نہ کبھی مقتدر حلقوں کے کہنے پر اتحاد بنائے، سمجھوتے کیے اور اقتدار میں آئے۔

تجزیہ کار سلمان عابد نے کہا، ''ڈیل کلچر کا ایک نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ الیکشن ایک رسمی کارروائی بن کر رہ جاتا ہے اور الیکشن کا نتیجہ الیکشن سے پہلے ہی سب کومعلوم ہو جاتا ہے۔ جو عوام کی حمایت سے اقتدار میں نہیں آئے گا وہ عوام کے لیے کام کیوں کرے گا وہ اسی کی بات مانے گا جس کے کندھوں پر سوار ہو کر اقتدار میں آیا ہے۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا، ''یہاں شروع سے ہی دیکھا جا رہا ہے کہ کچھ سیاست دان، سیاسی جماعتیں، اور اسٹیبلشمنٹ مل جل کر کسی کے حق میں یا کسی کی مخالفت میں، معاملات طے کر لیتے ہیں۔ پھر اسی بنیاد پر سارا سیاسی نظام سجایا جاتا ہے۔ ان کے نزدیک ڈیل کلچر کو تقویت دینے میں اسٹیبلشمنٹ، سیاستدانوں، عدلیہ، بیوروکریسی اور میڈیا سمیت سب نے اپنا اپنا کردار ادا کیا ہے۔‘‘

بدترین کریک ڈاؤن کا سامنا ہے، عمران خان

 یکساں مواقعوں کی فراہمی کا مطالبہ

سیاسی ماہرین کے مطابق مسلم لیگ نون کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مبینہ ڈیل کی خبروں نے دوسری جماعتوں کی تشویش کو بڑھا دیا ہے اور وہ برابری کی بنیاد پر  سلوک کیے جانے کا مطالبہ کررہی ہیں۔ ان میں وہ جماعتیں بھی شامل ہیں، جو دو مہینے پہلے مسلم لیگ نون کی اتحادی تھیں۔ سلمان عابد نے بتایا کہ اگلے انتخابات میں سیاسی جماعتوں کو یکساں مواقع ملنے کے امکانات بہت کم ہیں کیونکہ اس وقت پی ٹی آئی زیرعتاب ہے۔

عمران خان اور ان کی پارٹی کےسے ملکی مقتدر حلقوں کی ناراضگی میں فی الحال کمی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ ابھی تک انہیں جلسہ کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے، جو لوگ ان کے لیے جلسہ کرنا چاہتے ہیں، انہیں گرفتار کر لیا جا تا ہے۔

حتٰی کہ اسرائیل اور فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کے درمیان جاری لڑائی میں فلسطین کے حق میں لاہور میں مظاہرہ کرنے والے پی ٹی آئی کے کارکنان کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔ عدالتی حکم کے باوجود جلسہ کرنے کی اجازت نہیں ہے عدالتوں سے ضمانت ملنے کے باوجود ان لوگوں کو رہا نہیں کیا جا رہا۔  اس لیے انتخابات سے پہلے ہی انتخابات متنازع ہوتے جا رہے ہیں۔

پاکستان کے ممتاز ماہر سیاسیات ڈاکٹر رسول بخش رئیس نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ سیاسی جماعتوں کو عوام کے ساتھ ڈیل کرنا چاہیے۔ ان کے بقول پاکستان میں اس وقت حقیقی جمہوریت نہیں ہے جب تک ساری سیاسی جماعتوں کو آزادانہ طور پر انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ملتی۔

انہوں نے کہا، ''جب تک عمران خان کے خلاف ناجائز کیسوں کی بھر مار ختم نہیں ہوتی، فوج سیاست سے الگ نہیں ہوجاتی عدلیہ اور میڈیا کو آزادی نہیں ملتی، پاکستان میں حقیقی جمہوریت فروغ نہیں پا سکتی۔‘‘

بحرانوں کا شکار پاکستان: ذمہ دار کون، فوج یا سیاست دان؟