1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’پاکستان میں کون سرمایہ کاری کر ے گا؟‘

27 فروری 2018

 پاکستانی حکومت نے کہا ہے کہ وہ دہشت گردوں کی مالی مدد کرنے والی ’بین الاقوامی واچ لسٹ‘ میں اپنا نام نکالنے کے لیے جلد ایک حکمت عملی اپنانے پر کام کرے گا۔

https://p.dw.com/p/2tOVc
Pakistan Protest von Anhängern Nawaz Sharif
تصویر: picture alliance/dpa/AA/M. Reza

پاکستان کے وزیر خزانہ رانا افضل خان نے نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا،’’ ہم اس حوالے سے یکم مارچ سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کریں گے اور دیکھیں گے کہ ہم کیا حکمت عملی مرتب کر سکتے ہیں۔  ابھی تک پاکستان کو یہ نہیں بتایا گیا کہ اس نے کن چیزوں پر عمل درآمد کرنا ہے۔‘‘

فرانس کے دارالحکومت پیرس میں رقم کی غیرقانونی ترسیل کے خلاف کام کرنے والی تنظیم ’فنانشل ایکشن ٹاسک فورس‘ نے گزشتہ ہفتے پاکستان کو ’گرے لسٹ‘ والے ممالک میں شامل کرنے کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ یہ وہ ممالک ہیں جو اس تنظیم کے مطابق دہشت گردوں کی مالی معاونت کم کرنے کے لیے اقدامات نہیں کر رہے۔ اب پاکستان کے پاس تین ماہ تک کا عرصہ ہے کہ وہ ایسے اقدامات کرے جن کی بنیاد پر وہ فہرست میں شامل  ہونے سے بچ سکتا ہے جس میں وہ ممالک شامل ہیں جو دہشت گردوں کی مالی معاونت کر رہے ہیں۔ ماضی میں پاکستان کا نام دہشت گردوں کی حمایت کرنے والی فہرست میں 2012 سے 2015 میں رہا ہے۔

اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق مبصرین کی رائے میں پاکستان تین ماہ کے عرصے میں وہ تمام شرائط پوری نہیں کر سکے گا۔ ایف اے ٹی ایف کی جانب سے جاری بیان کے مطابق اس تنظیم کے رکن ممالک پاکستان کے خلاف ووٹ میں ترکی، چین اور سعودی عرب کو منا نہیں سکے تھے لیکن بعد میں امریکا نے ریاض کو پاکستان کے خلاف ووٹ دینے اور چین کو خاموشی اختیار کرنے پر منا لیا تھا۔ سعودی عرب اور چین کی جانب سے اس ردعمل کو پاکستان کی ایک بڑی سفارتی ہار کہا  جارہا ہے۔  چین پاکستان میں کئی ارب کی سرمایہ کاری کر رہا ہے تو اس ماہ کے آغاز میں پاکستان  نے لگ بھگ ایک ہزار فوجیوں کو سعودی عرب بھیجا تھا۔

FATF Week 2018
ماضی میں پاکستان کا نام دہشت گردوں کی حمایت کرنے والی فہرست میں 2012 سے 2015 میں رہا ہےتصویر: FATF

امریکی تھنک ٹینک ’دی ولسن سینٹر‘ سے منسلک مائیکل کوگیلمین نے اس موضوع پر اپنی ایک تحریر میں لکھا ہے،''پاکستان کی گرے لسٹ میں باقاعدہ شمولیت کا آغاز اس سال جون سے ہوگا۔ پاکستان کو کافی اقتصادی خطرات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس فیصلے کے بعد پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے والے پارٹنرز، بینک اور دیگر ادارے اب ایک ایسے ملک میں سرمایہ کاری کرنے کے بارے میں سوچیں گے جس کے بارے میں یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ دہشت گردوں کی مالی معاونت فراہم کرنے کے خلاف مناسب اقدامات نہیں کر رہا۔‘‘

اسی تحریر میں مائیکل کوگیلمین یہ بھی کہتے ہیں،’’پاکستان کے لیے سب کچھ برا نہیں ہے، مکمل طور پر بلیک لسٹ ہونے اور گرے لسٹ میں شامل ہونا ایک بات نہیں ہے۔ اگر پاکستان ایف اے ٹی ایف کے خدشات دور کرنے میں کامیاب ہو گیا تو یہ عین ممکن ہے کہ جلد ہی پاکستان کو گرے لسٹ سے بھی نکال دیا جائے۔

’پاکستان ’دہرا کھیل‘ کھیل رہا ہے، امریکا کا الزام

دہشت گردوں کی مبینہ مالی مدد، پاکستان پردباؤ

پاکستان: دہشت گردی میں مالی معاونت کے خلاف اقدامات کا وعدہ

اسی حوالے سے امریکی صدر کے ڈپٹی اسسٹنٹ نے 26 اور 27 فروری کو پاکستان کا دورہ کیا۔ اس موقع پر امریکی سفارت خانے کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا،’’ امریکا نے پاکستان پر زور ڈالا ہے کہ وہ اپنے ملک میں حقانی نیٹ ورک  اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کی مستقل موجودگی کا نوٹس لے۔‘‘ اس بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ بین الاقوامی کمیونٹی کو پاکستان کی جانب سے انسداد دہشت گردی اور منی لانڈرنگ کے خلاف اقدامات پر تحفظات ہیں۔

پاکستانی انگریزی اخبار کے صحافی خرم حسین نے اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’ ہمیں انتظار کرنا ہوگا اور یہ دیکھنا ہوگا کہ گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے پاکستان کو کن شرائط پر عمل کرنا ہو گا۔ گرے لسٹ میں شامل ہونے کا مطلب ہے کہ پاکستان کو بین الاقوامی تجارت میں مشکلات پیش آئیں گی۔‘‘

اسلام آباد میں قائم ’سینٹر فار انٹرنیشنل اسٹریٹیجک اسٹڈیز‘ کے سربراہ ایمبیسیڈر علی سرور نقوی نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا،’’میری رائے میں پاکستانی حکومت کو اس حوالے سے جلد ایک بیان جاری کرنا چاہیے جس میں وہ یہ واضح طور پر بتائے کہ وہ ایف اے ٹی ایف کی فہرست سے اپنا نام نکلوانے کے لیے کیا اقدامات کر رہا ہے؟‘‘ علی نقوی نے کہا کہ ماضی میں بھی پاکستان کا نام اس فہرست میں رہ چکا ہے اور ہمیں یہ پتا ہونا چاہیے کہ کن اقدامات کے باعث پاکستان اس فہرست سے اپنا نام نکلوانے میں کامیاب ہو گیا تھا۔