پاکستان میں غیر ملکی آئل کمپنی کے دو انجینئر اغواء
21 جنوری 2011جعمرات کے روز یہ واقعہ صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع کوہاٹ میں پیش آیا۔ مقامی انتظامیہ کے ایک سینئر اہلکار خالد عمرزئی نے جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کو بتایا کہ ہنگری کی آئل کمپنی MOL کے چار اہلکار کوہاٹ سے پشاور جا رہے تھے، جب نامعلوم تعداد میں عسکریت پسندوں نے ان کے قافلے پر حملہ کر دیا۔ عمرزئی کے مطابق اس حملے میں گاڑی کا ڈرائیور اور آئل کمپنی کا ایک ورکر ہلاک ہوگیا جبکہ عسکریت پسند دوانجینئروں کو اپنے ساتھ لے کر فرار ہو گئے۔
ہنگری کی اس تیل کمپنی کے اغواء کیے جانے والے دونوں انجینئر پاکستانی شہری ہیں۔ عسکریت پسندوں کے حملے کے نتیجے میں فرنٹیئرکانسٹیبلری کے چار اہلکار بھی جاں بحق ہو گئے۔ یہ سکیورٹی اہلکار آئل کمپنی کے ملازمین کی حفاظت کے لیے دوسری گاڑی میں سوار تھے اور حملہ آوروں سے مقابلے کے دوران مارے گئے۔
پاکستان کی ایک خفیہ ایجنسی کے ایک اہلکار نے جرمن خبر رساں ادارے کو اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ابتدائی اطلاعات کے مطابق حملہ آور مغویوں کو لے کر قریبی قبائلی علاقے کی طرف فرار ہوئے۔
طالبان اور ان کے حامی سمجھے جانے والے مختلف گروپوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پاکستان بھر میں اغواء کی سینکڑوں وارداتوں میں ملوث ہیں۔ عام طور پر اغواء کی ان وارداتوں کا مقصد تاوان وصول کرنا ہوتا ہے، جو بعد ازاں مبینہ طور پر دہشت گردانہ حملوں اور عسکری کارروائیوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
سال 2009ء میں پولینڈ سے تعلق رکھنے والے ایک ماہر ارضیات پیوٹر سٹانزاک کو بھی اغواء کر لیا گیا تھا، جسے بعد ازاں تاوان کی ادائیگی اور زیر حراست طالبان عسکریت پسندوں کی رہائی سے متعلق اغواکاروں کی شرائط تسلیم نہ کیے جانے کی وجہ سے قتل کر دیا گیا تھا۔
رپورٹ: افسر اعوان
ادارت: مقبول ملک