نوشہرہ میں بم دھماکہ: مزار اور مسجد میں ہلاکتیں
4 مارچ 2011اکبر پورہ اخوند پنجو بابا کے مزار پر واقع مسجد میں نماز کے بعد لنگر کی تقسیم جاری تھی کہ بم پھٹنے سے کہرام مچ گیا۔ بم دھماکے کے بعد امدادی کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ زخمیوں کے لیے امدادی عمل شروع کیا جا چکا ہے۔ ہلاک شدگان کی لاشیں ڈھونڈی جا رہی ہیں۔
جائے حادثہ پر خون اور نعشوں کے ٹکڑے بکھرے ہوئے ہیں۔ اب تک کم از کم پانچ افراد کی لاشیں حاصل کی جا چکی ہیں۔ زخمیوں کی تعداد پچیس تک پہنچ چکی ہے۔ شدید زخمیوں کو پشاور منتقل کیا جا رہا ہے۔ نوشہرہ اور پشاور میں ایمرجنسی کا نفاذ کر دیا گیا ہے۔ اضافی میڈیکل ٹیمیں زخمیوں کو طبی امداد فراہم کر رہی ہیں۔
پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے نمائندے جمیل شاہ کے مطابق اب تک پانچ لاشیں لائی جا چکی ہیں۔ پولیس ذرائع بھی ہلاکتوں کی تعداد پانچ بتا رہے ہیں جب کہ مقامی ذرائع کے مطابق یہ تعداد دس کے قریب ہے۔ حتمی ہلاک شدگان کا اندازہ جائے وقوعہ سے ملبہ ہٹانے کے بعد ہی ممکن ہو گا۔
پاکستان میں گزشتہ چند ہفتوں کے دوران حکومتی حلقوں میں یہ احساس پیدا ہو گیا تھا کہ مذہبی انتہا پسندوں کی جانب سے دہشت گردانہ کارروائیوں میں کمی واقع ہو گئی ہے۔ وفاقی وزیر شہباز بھٹی کے قتل اور اب نوشہرہ کی مسجد میں بم دھماکے سے حکومتی احساس کی قلعی کھل گئی ہے۔ خیبر پختونخوا میں انتہاپسند پہلے بھی کئی صوفیا کے مزاروں کو نشانہ بنا چکے ہیں اور بعض کو مکمل طور پر مسمار بھی کر دیا گیا ہے۔
پاکستان کے شمال مغربی صوبے خیبر پختونخوا کا ضلع نوشہرہ فوجی چھاؤنی کے طور پر شہرت رکھتا ہے۔ اس کے گرد ونواح میں بڑی آبادی والے کئی دیہات آباد ہیں۔ انگریز دور سے اس کی فوجی حیثیت مسلم ہے۔ دریائے کابل شہر کے وسط سے گزرتا ہے۔ سوات کے علاوہ مردان اور رسالپور کے لیے عمومی طور پر اسی شہر سے منسلک سڑک کو استعمال کیا جاتا ہے۔ راولپنڈی سے پشاور جاتے ہوئے جرنیلی سڑک یا جی ٹی روڈ پر نوشہرہ ایک بڑا شہر ہے۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: امجد علی