1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نئی اميگريشن پاليسی، حراستی مراکز اور ملک بدريوں ميں اضافہ

23 مئی 2018

يورپی کميشن کی ایک حاليہ درخواست کے بعد امکان ہے کہ بلاک کے رکن ممالک ميں مہاجرين کے ليے مختص حراستی مراکز کی تعداد اور پناہ کے مسترد درخواست گزاروں کی ملک بدريوں ميں اضافہ کر دیا جائے گا۔

https://p.dw.com/p/2yA1P
Deutschland Ellwangen - Polizisten nehmen Flüchtling fest
تصویر: Getty Images/T. Niedermueller

يورپی کميشن نے رکن رياستوں سے کہا ہے کہ وہ اپنے ہاں قائم مہاجرين کے حراستی مراکز کی گنجائش بڑھائيں اور ساتھ ساتھ معاشی مقاصد کے ليے يورپ پہنچنے والے تارکين وطن کی ملک بدريوں ميں بھی اضافہ کيا جائے۔ يہ احکامات يورپی بلاک کی اميگريشن کے حوالے سے تازہ پاليسی کے تحت جاری کيے گئے ہيں۔ اس بارے ميں اعلان يورپی کميشن کی اميگريشن امور سے متعلق ترجمان نتاشا برٹاؤڈ نے حال ہی ميں کيا۔

’ڈبلن ريگوليشن‘ کے مطابق سياسی پناہ کے متلاشی افراد کی پناہ کی درخواست صرف اسی یورپی ملک ميں جمع کرائی جا سکتی ہے، جس ملک ميں وہ سب سے پہلے داخل ہوئے ہوں۔ اس حوالے سے بات چيت کرتے ہوئے نتاشا برٹاؤڈ نے کہا کہ اس بارے ميں فيصلہ بلغاريہ کے ہاتھوں ميں ہے، جس کے پاس ان دنوں يورپی يونين کی صدارت ہے۔ انہوں نے بتايا کہ بلاک کے تمام اٹھائيس رکن ممالک ميں ڈبلن ضوابط سے متعلق اتفاق رائے پيدا کرنے کے ليے کميشن کی تجاويز کو حتمی شکل دے دی گئی ہے۔

ڈبلن ريگوليشن ميں ترميم کے حوالے سے مسودے ميں ’سوليڈيريٹی ميکينزم‘ بھی عمل میں ہے۔ اس مجوزہ نظام کے تحت یونین کے ایسے رکن ممالک کی مدد ہو سکے گی، جہاں اچانک بہت زيادہ تعداد ميں مہاجرين کی آمد ريکارڈ ہو۔ يورپی ذرائع کے مطابق تجاويز ميں يہ بھی شامل ہے کہ يورپ ميں نئے آنے والے تارک وطن کی ذمہ داری پانچ برس کی مدت تک کے ليے اس ملک پر عائد ہو گی جہاں متعلقہ تارک وطن سب سے پہلے پہنچا ہو۔ اٹلی نے اس مسودے کی مخالفت کی ہے۔

ڈبلن ريگوليشن اور نئی اميگريشن پاليسی پر يورپی يونين کے رکن ممالک کے وزرائے خارجہ چار جون کو ہونے والے ايک اجلاس ميں بحث کريں گے۔

یونانی حراستی مرکز میں قید پاکستانیوں کی صورت حال

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید