1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ليبيا ميں زير حراست مہاجرين کی تعداد ميں نماياں کمی

17 اپریل 2018

طرابلس حکومت کے ايک سينئر اہلکار نے بتايا ہے کہ مئی 2017 کے مقابلے ميں اس وقت ليبيا ميں زير حراست مہاجرين کی تعداد ميں اسی فيصد کمی رونما ہو چکی ہے۔

https://p.dw.com/p/2wCK7
Libyen Gefängnis in Zliten
تصویر: picture-alliance/AA/A. Izgi

ليبيا ميں مہاجرين سے متعلق امور کے نگران جنرل محمد بشر نے بتايا ہے کہ مئی 2017 ميں ملک ميں حراستی مراکز ميں موجود مہاجرين کی تعداد 27,000 تھی جو رواں سال اپريل کے وسط ميں 5,200 تک پہنچ گئی ہے۔ ان کے بقول اس نماياں کمی کے نتيجے ميں ملک بھر ميں موجود ترپن حراستی مراکز ميں سے بيس بند کر ديے گئے ہيں۔ بشر نے کہا کہ اس پيش رفت کا سہرا بين الاقوامی ادارہ برائے ہجرت يا IOM کی جانب سے ملک بدريوں ميں اضافے کو جاتا ہے۔

ليبيا ميں مہاجرين کی غلاموں کے طور پر فروخت سے متعلق امريکی نشرياتی ادارے سی اين اين کی ايک ويڈيو رپورٹ کے تناظر ميں مہاجرين سے متعلق کئی اداروں نے طرابلس حکام پر کافی تنقيد کی۔ بعد ازاں متعدد افريقی ممالک کے مہاجرين کو وہاں سے ان کے ممالک واپس بلا ليا گيا۔ ليبيا ميں مہاجرين سے متعلق امور کے نگران جنرل محمد بشر نے بتايا کہ ملک ميں اس وقت موجود مہاجرين کی اکثريت کا تعلق ايتھوپيا، صوماليہ اور اريٹريا سے ہے اور يہ مہاجرين کسی تيسرے ملک منتقل کيے جانے کے منتظر ہيں۔

اقوام متحدہ کے ہائی کميشن برائے مہاجرين يو اين ايچ سی آر کے مطابق ليبيا ميں اس وقت رجسٹرڈ مہاجرين کی تعداد اڑتاليس ہزار ہے، جن ميں سے پانچ تا دس ہزار کو اس سال ديگر ممالک منتقل کيا جانا ہے۔ اقوام متحدہ کے ماہرين پر مشتمل ايک پينل نے اس سال فروری ميں ايک رپورٹ جاری کی تھی، جس کے مطابق شمالی افريقہ ميں ہيومن ٹريفکنگ ميں اضافہ جاری ہے۔

ليبيا ميں زير حراست مہاجرين کو انتہائی مشکل حالات کا سامنا ہے۔ جنرل محمد بشر کے بقول سب سے نازک سمجھے جانے والے گروپ يعنی عورتوں اور بچوں کو بنيادی سہوليات فراہم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ تاہم انہوں نے يہ بھی تسليم کيا کہ سرکاری حراستی مراکز ميں حالات اطمينان بخش نہيں۔

اہل خانہ کے ساتھ قيام کرنے والے مہاجرين کے ليے کيمپ کتنے موزوں؟

ع س / ع ت، نيوز ايجنسياں