1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میونسٹر حملہ، ہم اب تک کیا جانتے ہیں؟

عاطف توقیر
8 اپریل 2018

پولیس جرمن شہر میونسٹر میں ایک ریسٹورنٹ کے باہر کھلی فضا میں بیٹھے افراد کے ہجوم پر وین چڑھا دینے اور پھر خود کو گولی مار کر ہلاک کر لینے والے حملہ آور اور اس حملے کے محرکات کی بابت تفتیش جاری رکھے ہوئے ہے۔

https://p.dw.com/p/2vfWP
Deutschland Kleintransporter fährt in Münster in Menschenmenge - Tote und Verletzte
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Gentsch

شمال مغربی جرمن شہر میونسٹر میں ہوئے اس حملے میں دو افراد ہلاک ہو گئے تھے، جب کہ حملہ آور کے کسی سیاسی مقصد کی بابت اب تک صورت حال واضح نہیں ہے اور نہ ہی یہ معلوم ہوا ہے کہ آیا اس شخص نے حملہ کرنے اور پھر خودکشی کر لینے کا سوچا تھا۔ تاہم حکام نے واضح انداز میں کہا ہے کہ اس حملے کے درپردہ ’اسلامی شدت پسندی‘ کا کوئی عنصر نہیں تھا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ میونسٹر میں پیش آنے والے اس خون ریز واقعے میں دیگر بیس افراد زخمی ہوئے ہیں، جن میں سے چھ شدید زخمی ہیں۔

میونسٹر حملہ دہشت گردی نہیں تھا، ابتدائی تفتیش کے نتائج

جرمنی: وین راہگیروں پر چڑھا دی گئی، متعدد افراد ہلاک یا زخمی

 

اس واقعے کے بعد سامنے آنے والی تصاویر میں ہر جانب ٹوٹی اور بکھری ہوئی میزیں اور کرسیاں دکھائی دی تھیں۔

جرمنی میں ماضی میں ہونے والے دہشت گردانہ واقعات کے باعث پہلے ہی سکیورٹی ہائی الرٹ ہے۔ ان میں سب سے زیادہ خون ریز واقعہ دسمبر 2016 میں برلن میں ایک کرسمس مارکیٹ پر ٹرک چڑھا دینے کا تھا، جس میں تیونس سے تعلق رکھنے والا سیاسی پناہ کا ایک متلاشی ملوث تھا۔

ہفتے کے سہ پہر میونسٹر میں حملہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا، جب وہاں مقامی افراد اور سیاح موسم بہار کے ایک روشن دن کے تناظر میں تفریح کے لیے نکلے تھے۔ ریاستی وزیرداخلہ ہیربرٹ روئل کے مطابق اس حملے میں ’مسلم شدت پسندی‘ کا کوئی اشارہ نہیں ملا ہے۔

انہوں نے ایک مرتبہ پھر زور دے کر کہا کہ اس سلسلے میں تفتیش جاری ہے اور اس تفتیش کے نتائج کا انتظار کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے واضح انداز میں کہا، ’’مشتبہ حملہ آور ایک جرمن شہری ہے اور ویسا بالکل نہیں جیسا ہر طرف کہا جاتا رہا ہے کہ اس واقعے میں سیاسی پناہ کا کوئی متلاشی ملوث تھا۔‘‘

جرمن میڈیا پر سامنے آنے والی رپورٹوں میں مشتبہ حملہ آور کی شناخت ژینس آر کے نام سے کی جا رہی ہے، جو ذہنی مسائل کا شکار تھا۔

جرمن نشریاتی ادارے زیڈ ڈی ایف کے مطابق، ’’اس شخص نے حال ہی میں خودکشی کی کوشش بھی کی تھی۔‘‘ ادھر این ٹی وی نامی نشریاتی ادارے نے اپنی خبروں میں بتایا ہے کہ یہ شخص اپنی موت کے ذریعے زیادہ سے زیادہ توجہ حاصل کرنے کا خواہش مند تھا۔ زیڈ ڈی ایف نے اپنی رپورٹوں میں یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ مشتبہ حملہ آور کا ممکنہ تعلق انتہائی دائیں بازو کی تحریکوں سے بھی ہو سکتا ہے۔

اس واقعے کے بعد پولیس نے علاقے کو اپنے حصار میں لے کر ناکہ بندی کر دی اور شہر کے رہائشیوں سے کہا کہ وہ مرکز شہر کی جانب آنے سے گریز کریں تاکہ تفتیش کا عمل آگے بڑھایا جا سکے۔

جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اس واقعے پر گہرے صدمے کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس حملے کے درپردہ حقائق کو ہر حال میں سامنے لایا جائے گا اور متاثرین کی مدد کی جائے گی۔