میرکل کی مہاجرین سے متعلق پالیسی بہت متاثر کن، جِم یونگ کِم
28 فروری 2016جرمن دارالحکومت برلن سے اتوار اٹھائیس فروری کے روز ملنے والی نیوز ایجنسی کے این اے کی رپورٹوں کے مطابق عالمی بینک کے صدر نے کہا کہ انگیلا میرکل ذاتی طور پر ان کی نظر میں دنیا بھر کے ان سربراہان مملکت و حکومت میں سے ایک ہیں، جو ’انتہائی حد تک غیر معمولی صلاحیتوں کی حامل شخصیات‘ سمجھی جاتی ہیں۔
جِم یونگ کِم نے یہ بات جرمن ہفت روزہ جریدے ’وَیلٹ اَم زونٹاگ‘ میں آج اتوار کے روز شائع ہونے والے اپنے ایک انٹرویو میں کہی۔ نیوز ایجنسی کے این اے نے لکھا ہے کہ جِم یونگ کِم کا یہ موقف اس لیے اور بھی اہم ہے کہ عالمی بینک کے اس وقت 56 سالہ صدر جِم کو 1964ء میں محض آٹھ سال کی عمر میں کوریائی جنگ کی وجہ سے جنوبی کوریا سے فرار ہونا پڑا تھا۔
اپنے اس انٹرویو میں ورلڈ بینک کے کوریائی نژاد صدر نے زور دے کر کہا کہ یہ درست ہے کہ یورپی یونین کی رکن ریاستوں کو اس وقت مہاجرین کے بحران کے سلسلے میں آپس میں مسلسل اختلاف رائے کا سامنا ہے تاہم انہیں یقین ہے کہ مہاجرین اور تارکین وطن سے متعلق رکن ریاستوں کی قومی پالیسیوں میں تضاد کے باعث یورپی اتحاد ٹوٹے گا نہیں بلکہ آخرکار اور مضبوط ہو گا۔
کے این کے مطابق جِم یونگ کِم نے یورپی ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ مہاجرین کے موجودہ بحران کو اپنے لیے ایک ’بہتر امکان‘ کے طور پر استعمال میں لائیں۔ ’’اس لیے کہ یونین کے رکن ہر ملک کو ہنرمند کاریگروں کی ضرورت ہے۔‘‘
ورلڈ بینک کے صدر نے ’وَیلٹ اَم زونٹاگ‘ کے ساتھ بات چیت میں کہا، ’’وہ ریاستیں جو آج تارکین وطن کو اپنے ہاں بہتر سے بہتر سماجی انضمام کا موقع فراہم کریں گی، وہی ریاستیں مستقبل میں عالمی سطح پر بہتر اقتصادی مقابلہ بازی کی سب سے زیادہ اہل ثابت ہوں گی۔‘‘
جِم یونگ کِم نے مزید کہا، ’’یورپ کو ہر حال میں یہ سمجھنا ہو گا کہ اس براعظم میں آبادی میں آنے والی تبدیلیاں کس طرح کے اقدامات کی متقاضی ہیں۔ یورپ کو یہ کام کرنا ہی ہو گا۔ یورپ کو جان جانا چاہیے کہ اپنی بوڑھی ہوتی ہوئی آبادی اور شرح پیدائش میں کمی کی وجہ سے اسے اپنے ہاں تارکین وطن کو قبول کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
اپنے اس موقف کے ساتھ ساتھ عالمی بینک کے صدر نے یہ بھی کہا کہ یورپ میں مہاجرین کی سالانہ لاکھوں کی تعداد میں آمد کے موجودہ رجحان کے بارے میں یہ بات بھی سچ ہے کہ یہ براعظم مستقل بنیادوں پر اس عمل کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
’’لاکھوں انسان اپنی زندگیاں داؤ پر لگا رہے ہیں۔ مہاجرین کے کیمپوں میں حالات بھی زیادہ عرصے تک ایسے نہیں رہ سکتے جیسے کہ اب ہیں۔ اس کے علاوہ ان مہاجرین کی آمد اور ان کی وجہ سے معاشرتی اور مالیاتی دباؤ کی یورپی یونین کے رکن ملکوں میں تقسیم کی اب تک کی صورت حال بھی بہت غیر منصفانہ ہے۔‘‘