1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مہاجرین فیس بک کا ’شکار‘ بھی بن سکتے ہیں

14 اپریل 2018

سماجی رابطوں کی ویب سائٹس جہاں دنیا بھر کے لوگوں کے مابین فوری رابطے کا سبب ہیں، وہیں مہاجرین کے بحران میں بھی سوشل میڈیا نے اہم کردار ادا کيا ہے۔ تاہم فیس بک مہاجرین کی مدد کے بجائے انہیں نقصان بھی پہنچا سکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/2w2i1
Symbolfoto Facebook
تصویر: Getty Images/AFP/C. Simon

اسمارٹ فون کی ٹیکنالوجی نے مہاجرین اور تارکین وطن افراد کو درپیش کئی مشکلات کا حل نکالا ہے۔ پرخطر راستوں کو آسان بنانا ہو یا معلومات حاصل کرنا ہوں، اسمارٹ فون نے اس تناظر میں مدد فراہم کی ہے۔

اسمارٹ فونز کی متعدد ایپلیکيشنز، جیسی کہ جی پی ایس درست لوکیشن اور سفر کی منصوبہ بندی کے لیے استعمال کی جاتی ہیں جبکہ واٹس ایپ، فیس بک اور ایسی دیگر ایپس اپنے عزیزوں سے رابطے میں رہنے کے لیے۔ یوں مہاجرین کے بحران میں اسمارٹ فون مہاجرین اور تارکین وطن افراد کے لیے ایک انتہائی قیمتی شے قرار دی جا رہی ہے۔

ڈیٹا اسکینڈل کی پوری ذمہ داری قبول کرتا ہوں، زکر برگ

فیس بک : ڈیٹا اسکینڈل مزید وسیع ہو گیا

دباؤ کے بعد فیس بک ’تبدیلیوں‘ پر مجبور

فیس بک کے حالیہ ڈیٹا اسکینڈل نے اس سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر کئی سوالیہ نشانات اٹھائے ہیں۔ تاہم مہاجرین فی الحال شاید اپنے خفیہ کوائف کے عام ہونے کے بارے میں زیادہ فکرمند نہیں کیونکہ انہیں دیگر کئی اہم اور فوری مسائل کا سامنا ہے۔

اس کے باوجود یہ امر اہم ہے کہ فیس بک صارفین کے خفیہ کوائف کے غلط استعمال کے باعث جيسے عام شہری متاثر ہو سکتے ہیں، ویسا ہی مہاجرین کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔

’لاکھوں میں ایک‘، پاکستانی تارک وطن پر دستاویزی فلم

انسانی اسمگلروں کا ایک آلہ

مہاجرین اور تارکین وطن فیس بک اور ایسی دیگر ویب سائٹس کو اپنے مہاجرت کے سفر کی منصوبہ بندی اور رابطوں کے لیے استعمال کرتے ہیں لیکن یہ پلیٹ فارمز اس تناظر میں ہمیشہ ان کی مدد نہیں کرتے۔ دراصل ایسے ٹھوس شواہد ملے ہیں کہ سوشل میڈیا کی کئی ویب سائٹس انسانوں کے اسمگلروں کو زیادہ فائدہ پہنچا رہی ہیں۔

قانون نافذ کرنے والی یورپی ایجنسی یوروپول کی طرف سے قائم کردہ یورپی مائیگرنٹ اسمگلنگ سینٹر (ای ایم ایس سی) کے مطابق سن دو ہزار سولہ میں سوشل میڈیا کے ایک ہزار ایک سو پچاس اکاؤنٹس پر شبہ تھا کہ وہ انسانوں کے اسمگلروں نے بنائے تھے۔ سن دو ہزار پندرہ کے مقابلے میں سن دو ہزار سولہ میں ایسے اکاؤنٹس میں ستاسی فیصد اضافہ ہوا تھا۔

ای اسمگلنگ

یورپی مائیگرنٹ اسمگلنگ سینٹر (ای ایم ایس سی) کی طرف سے جاری کردہ ان اعدادوشمار کے تناظر میں یورو پول نے سماجی رابطوں کے ذریعے انسانی اسمگلنگ کرنے کے عمل کو ’ای اسمگلنگ‘ کا نام دیا۔

ای ایم ایس سی کے مطابق غیر قانونی مہاجرت کو فروغ دینے کی خاطر آن لائن سرگرمیوں میں واضح اضافہ ہوا ہے اور یوں یہ بحران زیادہ پیچیدہ ہو گیا ہے۔

اس سینٹر کی ایک رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ مجرمانہ گروہ بغیر کسی رکاوٹ کے سوشل میڈیا کی متعدد ویب سائٹس کا استعمال کر رہے ہیں۔ یورپی یونین رکن ممالک کی سرحدوں کے تحفظ کی ایجنسی ’فرونٹيکس‘ نے بھی کہا ہے کہ یہ گروہ آن لان کھلے عام انسانوں کی اسمگلنگ کی تشہیر کرتے ہیں۔

مہاجرین کی لاشیں پاکستان پہنچ گئیں

تشدد کی لائیو اسٹریمنگ

فیس بک اور سوشل میڈیا کی دیگر متعدد ویب سائٹس مہاجرین کی زندگی میں ایک اور پریشان کن کردار بھی ادا کر رہی ہیں۔ عالمی ادارہ برائے مہاجرت (آئی او ایم) کے میڈیا اینڈ کمیونیکشن ڈائریکٹر لیونارڈ ڈوئل کے مطابق کئی نام نہاد پرائیویٹ چینلز تشدد اور ظلم وستم کے واقعات کی لائیو اسٹریم بھی کرتے ہیں تاکہ ان کے گھر والوں اور رشتہ داروں سے رقوم بٹوری جا سکیں۔

اس طرح کے کئی واقعات رپورٹ کیے جا چکے ہیں، جن میں انسانوں کے اسمگلر پہلے غیر قانونی سفر کی خاطر رقوم لیتے ہیں اور بعد ازاں انہی مہاجرین کو اپنی قید میں رکھ کر ان افراد کے گھر والوں سے اضافی رقوم حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

لیونارڈ ڈوئل کا کہنا ہے کہ زیادہ تر مہاجرین اور تارکین وطن ان تلخ حقائق سے بے خبر ہیں اور وہ فیس بک یا سماجی رابطوں کی دیگر ویب سائٹس کے ذریعے ان اسمگلروں سے رابطے کرتے ہیں۔

اس تناظر میں لیونارڈ ڈوئل نے کہا کہ حکومتوں کو ایسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر زور دینا چاہیے کہ وہ اپنی ویب سائٹس پر شائع کردہ تمام تر مواد کی ذمہ داری لیں۔

ان کا اصرار ہے کہ ایسے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کو اپنی سروسز کی نگرانی بڑھانا چاہیے تاکہ غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے والے افراد کے خلاف کارروائی میں مدد مل سکے۔

ع ب / ع ص / انفو مائیگرنٹس