1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مستقبل کا ڈیجیٹل یورپ کیسا ہو گا؟ ای یو رہنماؤں کی سمٹ

شمشیر حیدر نیوز ایجنسیاں
29 ستمبر 2017

یورپی یونین کے رہنما بلاک کے ڈیجیٹل مستقبل پر گفت گو کے لیے ایسٹونیا میں معنقدہ سمٹ میں جمع ہیں۔ سمٹ کے دوران بڑی ڈیجیٹل کمپنیوں پر ٹیکس عائد کیے جانے کے امکانات بھی ہیں۔

https://p.dw.com/p/2kxkZ
Estland WLan WiFi Schild
تصویر: picture-alliance/dpa/Estonian Tourist Board

رواں ششماہی کے لیے یورپی یونین کی صدارت ایسٹونیا کے پاس ہے۔ یورپی یونین کی یہ چھوٹی سی رکن ریاست ڈیجیٹلائزیشن کے حوالے سے دنیا بھر میں ایک منفرد شناخت کی حامل ہے۔ سن 2005 میں ایسٹونیا وہ پہلا ملک تھا جس نے اپنے شہریوں کو آن لائن ووٹ ڈالنے کی اجازت دی تھی۔

’روس کے باعث خدشات‘: امریکی نائب صدر ایسٹونیا پہنچ گئے

گُوگِل کو یورپی یونین کے اربوں ڈالر جرمانے کا سامنا

یورپی یونین کی صدارت سنبھالنے کے بعد ایسٹونیا نے یورپی یونین کے ڈیجیٹل مستقبل کے حوالے سے کافی کام کیا ہے اور اب ایسٹونیا کے دارالحکومت ٹالین میں یونین کے رہنما اسی موضوع پر گفتگو کے لیے جمع ہیں۔ آج انتیس ستمبر بروز جمع شروع ہونے والی اس سمٹ سے قبل ایسٹونیا کے وزیر اعظم یوری راتاس کا کہنا تھا، ’’ڈیجیٹل طرز زندگی کو اگر بہتر انداز میں اختیار کیا جائے تو اس سے بہت کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے۔‘‘

ایسٹونیا میں عوام اپنی گاڑیوں کی رجسٹریشن سے لے کر کئی دیگر امور انٹرنیٹ کی مدد سے ہی انجام دیتے ہیں۔ راتاس نے یورپی یونین کی سطح پر ڈیجیٹل طرز زندگی اختیار کرنے کے حوالے سے منعقدہ اس سمٹ کے بارے میں کہا، ’’پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر سمیت ڈیجیٹل انقلاب سے ہر کوئی مستفید ہو سکتا ہے لیکن اس سے زیادہ بڑی بات یہ ہے کہ ہمارے عوام اور بچے بھی اس سے مستفید ہو پائیں۔‘‘

ٹالین میں جاری اس سمٹ کے دوران یورپی یونین کے رہنما بلاک میں ڈیجیٹل دنیا کی بڑی کمپنیوں پر ٹیکس عائد کیے جانے کے منصوبے پر بھی غور کر رہے ہیں۔ کئی یورپی ممالک اور گوگل اور ایئر بی اینڈ بی جیسی کمپنیوں کے مابین ٹیکس کے مسئلے پر پہلے سے ہی اختلافات پائے جاتے ہیں۔

جمعرات کے روز فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے بڑی ڈیجیٹل کمپنیوں کو ’جدید دنیا کے مفت خور‘ قرار دیتے ہونے ان پر ٹیکس عائد کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ یورپی یونین کے نصف سے زائد ارکان ماکروں کی اس تجویز کے حامی ہیں لیکن چھوٹی ریاستوں کا کہنا ہے کہ ان کمپنیوں پر دنیا بھر میں ٹیکس عائد کیا جانا چاہیے۔

یونین کی ان چھوٹی رکن ریاستوں کو خدشہ ہے کہ ٹیکس عائد کیے جانے کی صورت میں اپیل، گوگل اور فیس بُک جیسی بڑی کمپنیاں اپنے ہیڈ کوارٹرز کہیں اور منتقل کر دیں گی جس کے باعث ان ممالک کی معیشتوں کا نقصان پہنچے گا۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ان تینوں کمپنیوں کے یورپی ہیڈ کوارٹرز آئرلینڈ میں واقع ہیں۔ آئرلینڈ میں کارپورٹ کمپنیوں پر دنیا بھر میں سب کم ٹیکس عائد کیا جاتا ہے۔

دوسری جانب ٹالین میں ہی یورپی کمیشن کے سربراہ ژاں کلود یُنکر نے بریگزٹ مذاکرات کے حوالے سے بھی ایک اہم بیان دیا ہے۔ یُنکر کے مطابق، ’’بریگزٹ طلاق کے حوالے سے مذاکرات میں ٹریڈ کے متعلق معاملات پر اکتوبر میں گفتگو شروع ہونا کسی معجزے سے کم نہیں ہو گا۔‘‘ اس سے قبل برطانوی وزیر اعظم ٹریزا مے نے کہا تھا کہ بریگزٹ کے بعد برطانیہ میں یورپی یونین کے شہریوں کے حقوق کے حوالے سے کافی پیش رفت ہو چکی ہے۔

یورپی یونین کی صدارت پہلی بار چھوٹے سے ملک ایسٹونیا کے پاس

سی آئی اے آئی فون ہیک کر کے جاسوسی کرتی رہی، وکی لیکس

مستقبل کی دکانیں اور مارکیٹیں، سب کچھ ڈیجیٹل ہوگا