1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی قرارداد برطانوی پارلیمان میں منظور

Maqbool Malik14 اکتوبر 2014

برطانوی پارلیمنٹ میں فلسطین کو بطور ایک آزاد ریاست تسلیم کرنے کی قرارداد کو منظور کر لیا گیا ہے۔ یہ ایک ایسی قرارداد ہے، جس کی پارلیمانی منظوری کے بعد بھی حکومت کا اِس پر عمل کرنا ضروری نہیں ہے۔

https://p.dw.com/p/1DVB3
تصویر: picture-alliance/dpa

برطانوی ایوانِ زیریں یا دارالعوام (House of Commons) میں پیش کی گئی قرارداد کو ایوان میں موجود اراکین کی بھاری اکثریت نے منظور کیا۔ اِس قرارداد کے حق میں 274 اور مخالفت میں 12 ووٹ ڈالے گئے۔ برطانوی دارالعوام میں کی جانے والی بحث ٹیلی وژن پر کئی ملکوں میں دیکھی گئی۔ کیمرون حکومت نے وزراء سے کہہ رکھا تھا کہ وہ پارلیمانی بحث میں شرکت کرنے سے اجتناب کریں۔ یورپ بھر میں برٹش پارلیمنٹ میں پیش کردہ اس قرارداد کی اہمیت سویڈن کی جانب سے فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کے اعلان کے بعد زیادہ اہم ہو گئی تھی۔ اسرائیل نے سویڈش حکومت کے فیصلے پر خاصی ناراضی کا اظہار کیا تھا۔

پیر کو رات گئے ہاؤس آف کامنز میں منظور کی گئی یہ قرارداد علامتی نوعیت کی ہے کیونکہ برطانوی حکومت اس پر عملدرآمد کی پابند نہیں ہے۔ اس وجہ سے یہ قرارداد ممکنہ طور پر ملکی حکومت کی فلسطین سے متعلق پالیسی میں کسی تبدیلی کا سبب نہیں بنے گی۔ اس قرارداد میں اسرائیل کے ساتھ ساتھ فلسطینی ریاست کو بھی مشرق وسطیٰ کے تنازعے کے دو ریاستی حل کی بنیاد پر تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ برطانوی حکومت نے فلسطین کی ریاستی حیثیت کو تسلیم نہیں کیا ہے لیکن اُس کا موقف ہے کہ مستقبل میں اِس موقف میں تبدیلی کسی وقت بھی لائی جا سکتی ہے۔

Miliband im britischen Parlament 26.09.2014
برطانیہ کی مرکزی اپوزیشن جماعت لیبر پارٹی کے لیڈر ایڈ ملی بینڈتصویر: Reuters/UK Parliament via REUTERS TV

بحث کا آغاز دارالعوام میں مرکزی اپوزیشن جماعت لیبر پارٹی کے رکن گراہم مورس نے کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں خطے میں نوآبادیاتی نظام رکھنے کی وجہ سے اِس تنازعے میں برطانیہ پر اخلاقی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ فعال کردار ادا کرے۔ مورس کے مطابق اسرائیل اور فلسطین کا مذاکراتی عمل بند گلی میں داخل ہو چکا ہے اور اس طرح پیدا ہونے والے ڈیڈ لاک کو توڑ کر ہی آگے بڑھنے کا راستہ بنایا جا سکتا ہے۔ یہ قرارداد بھی بیک بینچر رکن پارلیمان گراہم مورِس کی جانب سے پیش کی گئی تھی۔ برطانوی پارلیمانی قواعد کے مطابق پارلیمنٹ کے بیک بینچرز کی جانب سے پیش کردہ کسی بھی قرارداد پر حکومت عمل کرنے کی پابند نہیں ہوتی۔ برٹش پارلیمنٹ میں بیک بینچر اُس رکن کو کہتے ہیں جس کے پاس کوئی حکومتی عہدہ نہ ہو اور نہ ہی اپوزیشن جماعت نے اُسے اپنی شیڈو حکومت کا حصہ بنایا ہو۔ ایسے کسی رکن کی پیش کردہ قرارداد پر اس کی منظوری کے بعد عمل کرنا حکومت پر لازم نہیں ہوتا۔

کیمرون حکومت مشرق وسطیٰ میں دو ریاستی حل کی حامی ہے لیکن اُس کے اراکین اور حامی وزراء کو پارلیمنٹ کی کارروائی میں شریک ہونے سے گریز کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔ قرارداد پر بحث کے آغاز پر اکثریتی کنزرویٹو پارٹی کے لیڈر ڈیوڈ کیمرون اور لیبر پارٹی کے لیڈر ایڈ ملی بینڈ ایوانِ زیریں میں موجود نہیں تھے۔ برطانوی دارالعوام کی نشستوں کی تعداد 650 ہے اور پیش کردہ قرارداد کے حق میں نصف سے بھی کم اراکین نے اپنا ووٹ ڈالا لیکن اِس قرارداد کو کئی دوسری برطانوی پارٹیوں کے اراکین کی حمایت ضرور حاصل ہوئی۔ حکمران ٹوری پارٹی کے 39 اراکین نے قرارداد کے حق میں ووٹ ڈالا۔ اپوزیشن لیبر پارٹی کی جانب سے ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد 192 رہی۔ ان میں پارٹی لیڈر ایڈ ملی بینڈ کا ووٹ بھی شامل تھا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید