1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

غزہ تنازعہ: طویل المدتی حل کے لیے مذاکرات

امجد علی22 ستمبر 2014

23 ستمبر سے مصری دارالحکومت قاہرہ میں اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین غزہ تنازعے کے کسی طویل المدتی حل کے لیے بات چیت ایک مرتبہ پھر شروع ہو رہی ہے۔ غیر معینہ مدت کے لیے فائر بندی پر اتفاق تقریباً ایک مہینہ پہلے ہوا تھا۔

https://p.dw.com/p/1DGrE
اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین اگست میں بھی قاہرہ میں مذاکرات ہوئے تھے
اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین اگست میں بھی قاہرہ میں مذاکرات ہوئے تھےتصویر: Desouki/AFP/GettyImages

اب تک کی سب سے طویل یعنی پچاس روزہ غزہ جنگ کے بعد ہونے والی اس فائر بندی پر ابھی تک بڑی حد تک کامیابی سے عمل ہو رہا ہے۔

کسی طویل المدتی حل کے لیے منگل سے اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین شروع ہونے والے بالواسطہ مذاکرات میں مصر ثالث کا کردار ادا کر رہا ہے جبکہ اس بات چیت میں انتہا پسند تنظیم حماس کے نمائندے بھی شریک ہوں گے۔

ان مذاکرات میں دیگر امور کے ساتھ ساتھ غزہ پٹی کی سرحدی گزر گاہوں کو کھولنے اور قیدیوں کو رہا کرنے جیسے متنازعہ معاملات پر بھی بات کی جائے گی۔ آج کل اسرائیل سے روزانہ تقریباً دو سو ٹرک انسانی بنیادوں پر امداد لے کر بحیرہء روم کے کنارے و اقع اس چھوٹے سے فلسطینی علاقے کی جانب جاتے ہیں۔

غزہ کے باسی جلد از اجلد اپنے گھروں کی تعمیرِ نو کے خواہاں ہیں
غزہ کے باسی جلد از اجلد اپنے گھروں کی تعمیرِ نو کے خواہاں ہیںتصویر: DW/T. Krämer

دو امور خاص طور پر نزاع کا باعث بنے ہوئے ہیں: اسرائیل کا مطالبہ ہے کہ غزہ پر حکمرانی کرنے والی تنظیم حماس کو غیر مسلح کیا جائے۔ حماس اس مطالبے کو تسلیم کرنے سے انکار کر رہی ہے۔ دوسری جانب فلسطینیوں کا مطالبہ یہ ہے کہ اُنہیں غزہ پٹی میں ایک بندرگاہ کے ساتھ ساتھ ایک ایئر پورٹ تعمیر کرنے کی بھی اجازت دی جائے۔ یہ مطالبہ اسرائیل کے لیے قابلِ قبول نہیں ہے۔

اس کے برعکس کچھ باتوں پر اتفاقِ رائے طے پا گیا ہے، مثلاً اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان غزہ پٹی میں تعمیرِ نو کے لیے ضروری تعمیراتی ساز و سامان کی فراہمی کے معاملات طے پا گئے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ تعمیرِ نو کا کام خود مختار فلسطینی انتظامیہ اور اقوام متحدہ کی نگرانی میں انجام پائے گا۔ جنگ کے نتیجے میں غزہ پٹی میں وسیع پیمانے پر تباہی کے بعد نئے رہائشی یونٹوں کے ساتھ ساتھ نئے اسکولوں اور مساجد کی بھی ضرورت ہے۔

پچاس روزہ غزہ جنگ کے نتیجے میں ایک لاکھ آٹھ ہزار فلسطینی بے گھر ہو گئے
پچاس روزہ غزہ جنگ کے نتیجے میں ایک لاکھ آٹھ ہزار فلسطینی بے گھر ہو گئےتصویر: DW/T. Krämer

اس سال موسمِ گرما میں غزہ میں پچاس روز تک جاری رہنے والی جنگ کے دوران فلسطینی عسکریت پسندوں نے چار ہزار پانچ سو راکٹ اسرائیلی سرزمین کی جانب فائر کیے۔ اُدھر اسرائیلی فوج کے اپنے بیانات کے مطابق اُس نے غزہ پٹی میں پانچ ہزار سے زیادہ اہداف کو نشانہ بنایا۔ اقوام متحدہ کی ہنگامی امداد کی تنظیم Ocha کے مطابق اٹھارہ ہزار مکانات تباہ ہوئے جبکہ ایک لاکھ آٹھ ہزار افراد بے گھر ہو گئے۔ اسی طرح اس جنگ میں دو ہزار ایک سو سے زیادہ فلسطینی جبکہ ستّر سے زیادہ اسرائیلی ہلاک ہو گئے۔

موجودہ حالات میں پھر سے پُر تشدد واقعات کا سلسلہ شروع ہو جانے کو بڑی حد تک خارج از امکان قرار دیا جا رہا ہے۔ امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں قائم ادارے انسٹیٹیوٹ فار نیئر ایسٹ پالیسی سے وابستہ مچل ہیرسوگ نے جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کو بتایا، ’یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ حماس دوبارہ فائرنگ شروع نہیں کرنا چاہتی‘۔ سابقہ امن مذاکرات میں اسرائیلی مذاکراتی ٹیم کو مشاورت فراہم کرنے و الے ہیرسوگ نے کہا کہ اب غزہ کے عوام کوئی نیا تشدد نہیں بلکہ تعمیرِ نو کا ایک تیز عمل چاہتے ہیں۔ ہیرسوگ نے یہ بھی کہا کہ آج کل کے حالات میں نئے امن مذاکرات بھی پھر سے شروع ہوتے نظر نہیں آتے۔