1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سزائے موت کے خلاف عالمی جدوجہد، ایک تبصرہ

مِریَم گیہرکے / مقبول ملک27 مارچ 2014

انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق سزائے موت کے خلاف عالمی سطح پر کی جانے والی جدوجہد میں پیش رفت ہوئی تو ہے لیکن اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو اس تنظیم کی تازہ رپورٹ بھی زیادہ باعث اطمینان نہیں ہے۔

https://p.dw.com/p/1BX5W

اس موضوع پر ڈوئچے ویلے کی تبصرہ نگار مِریَم گیہرکے کا لکھا تبصرہ:

دنیا بھر میں سزائے موت سے متعلق ایمنسٹی انٹرنیشنل کی تازہ ترین اعداد و شمار پر مشتمل رپورٹ پر اس حد تک تو خوشی اور اطمینان کا اظہار کیا جا سکتا ہے کہ بین الاقوامی سطح پر سزائے موت کے خاتمے کا رجحان گزشتہ برس بھی جاری رہا۔ اس رپورٹ میں مصر میں ابھی حال ہی میں اخوان المسلمون کے پانچ سو سے زائد ارکان اور حامیوں کو سنائی گئی اس سزائے موت کا کوئی ذکر نہیں ہے، جس پر شاید عمل درآمد نہیں کیا جائے گا۔

بات چاہے صرف ایک ہی ملک کی ہو، دیکھا جائے تو مصر میں محض ایک ہی مقدمے میں ایسے سینکڑوں ملزمان کو موت کی سزا کا حکم سنایا جانا بھی ایسی سزاؤں کے خلاف عالمی کوششوں کو پہنچنے والا ایک بہت بڑا دھچکا ہے۔

Symbolbild Todesstrafe Amnesty International
تصویر: dapd

ایمنسٹی کی تازہ رپورٹ کے مطابق اس میں کوئی شک نہیں کہ 2013ء میں سارے یورپ اور ایشیا کے اکثر ملکوں میں کسی بھی ملزم کو سنائی گئی سزائے موت پر عملدرآمد نہیں کیا گیا، جو اچھی بات ہے۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی حوصلہ افزا ہے کہ مغربی افریقہ کے کئی ممالک میں ایسی قانونی اور آئینی ترامیم کی جا چکی ہیں، جو سزائے موت کے خاتمے کو ممکن بناتی ہیں۔

یہ امر بھی اطمینان کا باعث ہے کہ پاکستان میں سزائے موت پانے والے ملزمان کی سزاؤں پر عملدرآمد ملتوی کر دیا گیا اور سنگاپور میں بھی کسی ایسے مجرم کو عملی طور پر موت کی وہ سزا نہیں دی گئی جو اسے کسی بھی ملکی عدالت نے سنائی تھی۔

ایمنسٹی کی اس رپورٹ کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس میں ایک بار پھر چین میں 2013ء میں سزا یافتہ مجرموں کو دی گئی موت کی سزاؤں سے متعلق کوئی اعداد و شمار شامل نہیں ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ چین میں ایسے ڈیٹا کی حفاظت سرکاری راز کی طرح کی جاتی ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق چین میں گزشتہ برس ممکنہ طور پر جتنے مجرموں کو سزائے موت دی گئی، ان کی تعداد ہزاروں میں بنتی ہے۔ یہ تعداد دنیا کے باقی تمام ملکوں میں دی جانے والی موت کی سزاؤں کی مجموعی تعداد سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ اس کے باوجود ان دنوں مختلف یورپی ملکوں کا دورہ کرنے والے نئے چینی صدر شی جِن پِنگ کو اس وجہ سے یورپی دارالحکومتوں میں شاید ہی کسی تنقید کا سامنا کرنا پڑے۔

Symbolbild Todesstrafe Galgen
تصویر: picture-alliance/dpa

بات یہ ہے کہ جمہوریت اور سزائے موت دونوں ایک ساتھ اکٹھے نہیں رہ سکتے۔ سزائے موت کے خلاف گزشتہ برس نظر آنے والی پیش رفت کے باوجود، ایسے واقعات کی تعداد میں 2012ء کے مقابلے میں 15 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا، جن میں مجرموں کو دی گئی سزائے موت کا قانونی طور پر باقاعدہ ریکارڈ بھی رکھا گیا۔

جرمنی کے ایک سابق وزیر انصاف ٹوماس ڈیہلر نے ایک بار کہا تھا کہ سزائے موت کا تعلق جابر حکمرانوں، ریاستی دہشت گردی اور آمریت سے ہے۔ سزائے موت آزادی کو یقینی بنانے والی جمہوریت کا حصہ نہیں ہوتی۔ اسی لیے تازہ عالمی اعداد و شمار میں ایران، عراق، سعودی عرب، صومالیہ، سوڈان اور یمن جیسی ریاستیں سب سے آگے ہیں، جو شخصی آزادیوں کو رواج دینے والی جمہوریتیں تو بالکل نہیں ہیں۔

امریکا میں 18 وفاقی ریاستیں اپنے ہاں موت کی سزا ختم کر چکی ہیں۔ اس کے باوجود مغربی جمہوری ریاستوں میں سے امریکا وہ واحد ملک ہے، جہاں ابھی تک سزائے موت پر عملدرآمد کیا جاتا ہے۔

سزائے موت پر عملدرآمد کے خلاف عالمی جنگ میں سب سے زیادہ خوشی کی بات شاید یہ ہو گی کہ نہ تو کسی کو موت کی سزا دی جائے اور نہ اس بارے میں ایمنسٹی کو تازہ اعداد و شمار پر مشتمل کوئی سالانہ رپورٹ جاری کرنا پڑے۔