1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’ستر اہلکار پناہ کی اٹھارہ ہزار درخواستوں کا جائزہ لیں گے‘

31 مئی 2018

جرمن وزارت داخلہ کے مطابق بی اے ایم ایف کی بریمن شاخ میں سیاسی پناہ کی درخواستوں پر خلاف ضابطہ فیصلوں کے بعد اٹھارہ ہزار درخواستوں کا دوبارہ جائزہ لیا جا رہا ہے۔ یہ کام ستر اہلکار سرانجام دیں گے۔

https://p.dw.com/p/2yhXg
Schild Asyl
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Deck

بریمن میں ’اسائلم اسکینڈل‘ سامنے آنے کے بعد جرمن وزارت داخلہ نے سیاسی پناہ کی اٹھارہ ہزار درخواستوں کا از سر نو جائزہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ تاہم یہ کام صرف ستر اہلکاروں نے تین ماہ میں سرانجام دینا ہے جس کے باعث ایسے خدشات ہیں کہ جرمنی میں سیاسی پناہ کی دیگر درخواستوں پر فیصلے کرنے میں تاخیر ہو سکتی ہے۔

جرمن وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر نے سن 2014 سے وفاقی وزارت داخلہ میں مہاجرت کے امور کی سربراہی کرنے والے ایک سینیئر ڈائریکٹر کو ان کی ذمہ داریوں سے سکبدوش کرتے ہوئے ’قبل از وقت ریٹائرمنٹ‘ پر بھیج دیا ہے۔ جرمن میگزین ’فوکس‘ کے مطابق یہ سینیئر اہلکار سابق ملکی وزیر داخلہ تھوماس ڈے میزیئر کے قریب سمجھے جاتے تھے۔ ناقدین کے مطابق زیہوفر کے اس فیصلے کی نوعیت سیاسی ہے، کیوں کہ مذکورہ اہلکار نے تھوماس ڈے میزیئر کی وزارت کے دوران مہاجر دوست پالیسی کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔

بی اے ایم ایف کے پاس سیاسی پناہ کی پچاس ہزار درخواستیں ایسی ہیں جو ابھی تک فیصلوں کی منتظر ہیں۔ تاہم وزارت داخلہ کے مطابق از سر نو جائزے لیے جانے کے بعد درخواستیں نمٹانے میں مزید تاخیر ہو سکتی ہے اور اس کے باعث فیصلوں کی منتظر درخواستوں کی تعداد اسی ہزار سے زائد ہو سکتی ہے۔

گزشتہ ہفتے جرمن وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر اور بی اے ایم ایف کی سربراہ یولیا کورڈٹ پارلیمانی کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے اور ’بریمن اسائلم اسکینڈل‘ کے حوالے سے کمیٹی کے ارکان کے سوالات کا سامنا کیا۔ جرمنی کی گرین پارٹی کے ارکان نے مطالبہ کیا تھا کہ پارلیمانی کمیٹی کی کارروائی کو عام کیا جائے تاہم کمیٹی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ پرائیوسی سے متعلق ملکی قوانین کے باعث ایسا نہیں کیا جا سکتا۔

 بعد میں سامنے آنے والی تفصیلات کے مطابق تاہم وزیر داخلہ نے سیاسی پناہ کی درخواستوں پر فیصلوں میں بے ضابطگیوں کے حوالے سے حکومت کی جانب سے معذرت کی جب کہ بی اے ایم ایف کی سربراہ نے پارلیمانی کمیٹی کو بتایا کہ اس ضمن میں جاری تحقیقات کے شفاف ہونے کو یقینی بنایا جا رہا ہے۔

دوسری جانب بی اے ایم ایف کی جانب سے سیاسی پناہ کی درخواستوں پر خلاف ضابطہ فیصلے کیے جانے کا اسکینڈل مزید وسیع ہوتا جا رہا ہے۔ بریمن کے علاوہ بی اے ایم ایف کی بِنگن شاخ کے بارے میں بھی یہ سوال پوچھا جا رہا ہے کہ اس دفتر کے فیصلوں میں ایران اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے پناہ کے متلاشی افراد کی درخواستیں منظور کیے جانے کی شرح باقی ملک کی نسبت زیادہ کیوں ہیں۔ گزشتہ برس بی اے ایم ایف بریمن شاخ کے سربراہ نے ادارے میں مبینہ بے ضابطگیوں کی اطلاع ادارے کی سربراہ سمیت وزارت داخلہ کو بھی دی تھی۔ تاہم ان کی شکایات کے بعد انہیں اُن کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا اور وہ اب عدالت میں اپنی برطرفی کے خلاف مقدمہ لڑ رہے ہیں۔

دوسری جانب بی اے ایم ایف اسٹاف کونسل نے موجودہ اسکینڈل میں صرف ادارے کے اہلکاروں کو موردِ الزام ٹھہرانے پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس ضمن میں اس وفاقی ادارے کی سربراہ اور وزارت داخلہ کو بھی شامل تفتیش کیا جائے۔ اسٹاف کونسل کا کہنا ہے کہ سیاست دانوں کی جانب سے دباؤ کے باعث ادارے کی سربراہ بی اے ایم ایف کے اہلکاروں پر پناہ کی درخواستیں جلد از جلد نمٹانے کے لیے دباؤ ڈالتی رہی ہیں۔

ش ح / ع ت / ص ح (ڈی پی اے، اے ایف پی)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید