1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی کا ایک معروف ترین غنڈہ رہا ہونے والا ہے

17 فروری 2018

1988ء میں جرمن پولیس دو دن تک ان مسلح ڈکیتوں کا پیچھا کرتی رہی، جنہوں نے گلاڈ بیک کے ایک بینک کو لوٹنے کی ناکام کوشش کی تھی۔ اب ان میں سے ایک ’ڈکیت‘ ڈیٹر ڈیگوفسکی کو رہا کیا جا رہا۔

https://p.dw.com/p/2sr3b
تصویر: picture alliance/AP Photo/M. Pfeil

جرمن ریاست نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے شہر آرنس برگ کی عدالت کے مطابق ڈیٹر ڈیگوفسکی تیس سال سلاخوں کے پیچھے گزار چکا ہے اور اسے اب اگلے مہینوں کے دوران مشروط رہائی دی جا رہی ہے۔ ماہرین نے ڈیگوفسکی کے رویے میں ’مثبت‘ تبدیلی کی پیشن گوئی کی ہے، جس کی روشنی میں عدالت نے یہ فیصلہ کیا ہے۔

Dieter Degowski Gladbecker Geiselnehmer
تصویر: picture-alliance/AP Photo

1988ء میں بینک  لوٹنے کی ناکام کوشش کے بعد ڈیگوفسکی اور اس کے ایک ساتھی یؤرگن رؤسنر نے پہلے ایک بس اور پھر ایک کار چیھنی اور لوگوں کو یرغمال بنایا۔ اس واقعے میں تین لوگ ہلاک ہوئے، ان میں ایک پولیس اہلکار، سولہ سالہ زلکے بشہوف اور ایک پندرہ سالہ لڑکا شامل تھے۔ پولیس تقریباً 54 گھنٹوں تک ان کا پیچھا کرتی رہی۔تاہم بون کے پاس ہائے وے پر ان کے سفر میں رکاوٹ ڈالتے ہوئے انہیں پکڑ لیا گیا۔

اس پوری کارروائی کے دوران اغوا کار مسلسل صحافیوں سے رابطے میں رہے اور کولون میں انہوں نے کار میں بیٹھے بیٹھے ایک انٹرویو بھی دیا۔ اس انٹرویو کے دوران ڈیگوفسکی کار کی پچھلی نشست پر بیٹھا ہوا تھا اور اس نے زلکے کی گردن پر اپنی پستول رکھی ہوئی تھی۔

Rösner Gladbecker Geiselnehmer
تصویر: picture-alliance/AP Photo

1991ء میں عدالت نے دیگوفسکی کو 24 سال قید کی سزا سنائی بھی جبکہ رؤسنر آخن شہر کی جیل میں فی الحال اپنا سزا کاٹ رہا ہے۔بتایا گیا ہے کہ رہائی کے بعد ڈیٹر ڈیگوفسکی کو نئی شناخت بھی دی جائے گی تا کہ اسے معاشرے میں ضم ہونے میں رکاوٹ نہ ہوا۔

اس رہائی کے حوالے سے مختلف حلقوں کی رائے ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ کچھ کا خیال ہے کہ ملزم نے اپنی سزا پوری کر لی ہے اور ہر انسان ایک دوسرے موقع کا حق دار ہے، تاہم مخالفین کا خیال ہے اس طرح کے کسی قاتل کو آزادی ملنا معاشرے کے لیے خطرناک ہے جبکہ دوسرے ملزم کو رہا کیوں نہیں کیا جا رہا؟