1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

موئلن کے واقعے کے بیس سال

23 نومبر 2012

جرمنی میں بیس سال قبل موئلن نامی شہر میں آتش زنی کا ایک واقعہ رونما ہوا تھا، جس میں نیو نازی ملوث تھے۔ مجرموں کو سزائیں دی جا چکی ہیں تاہم دائیں بازو کی انتہا پسندی جرمن سیاست میں ابھی بھی ایک مرکزی موضوع ہے۔

https://p.dw.com/p/16ord
تصویر: picture-alliance/dpa

یہ بات 23 نومبر 1992ء کی ہے، جب لارس سی اور مشائیل پی نامی نوجوانوں نے ترک نژاد تارکین وطن کے دو گھروں پر حملے کیے۔ نیو نازی خیالات کے حامل ان دونوں نوجوانوں نے ان گھروں پر آتش گیر مادہ پھینکا۔ ایک گھر میں لگنے والی آگ نے 9 افراد کو شدید زخمی کر دیا جبکہ دوسرے گھر میں دس سالہ ژیلیز ارسلان اور چودہ سالہ عائشہ یلماز اپنی دادی سمیت جھلس کر ہلاک ہو گئے تھے۔ اُس وقت لارس کی عمر انیس جبکہ مشائیل پچیس سال کا تھا۔ ماحول دوست گرین پارٹی کے سیاستدان ہنس کرسٹیان اسٹروئبلے کے خیال میں موئلن کے آتش زنی کے واقعے کے بعد جرمن حکومت دائیں بازو کی انتہا پسندی کو روکنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات اٹھانے میں ناکام رہی ہے۔

Deutschland Brandanschlag in Mölln Demonstration 1992
غیر ملکیوں سے نفرت کے خلاف شہریوں نے مظاہرے کیے تھےتصویر: picture-alliance/dpa

آج بیس سال بعد ایک مرتبہ پھر اس علاقے میں اس واقعے میں مرنے والوں کو یاد کیا گیا۔ موئلن میں ہونے والے اس حملے پر صرف مقامی لوگ ہی افسردہ نہیں ہوئے بلکہ اس نے پورے جرمنی کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے گروپوں کے تشدد اور اُن کی غیر ملکیوں سے نفرت کے خلاف ملک بھر میں ہزاروں کی تعداد میں شہریوں نے مظاہرے کیے۔

دوسری جانب جرمنی میں سیاسی پناہ کے حصول کے قوانین میں تبدیلی کے حوالے سے بھی ایک بحث کا آغاز ہو گیا۔ گرین پارٹی کے کرسٹیان اسٹرؤبلے کہتے ہیں کہ اس واقعے کی ذمہ داری سیاستدانوں پر بھی عائد ہوتی ہے۔ ان کے بقول بیس سال قبل کچھ ذمہ دار سیاستدانوں نے بھی غیر ملکیوں اور سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کے خلاف بیانات دیے تھے، جس سے صورتحال مزید بگڑ گئی تھی۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ اُس وقت سیاستدان سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کی تعداد کم کرنے کے حوالے سے بنیادی قوانین میں تبدیلیاں چاہتے تھے۔ اسی وجہ سے ان دو گھروں کو نذر آتش کیا گیا۔ موئلن کا واقعہ اتحاد جرمنی کے بعد غیر ملکیوں کے خلاف ایسا پہلا واقعہ تھا، جس میں انسانی جانیں ضائع ہوئی تھیں۔ اس کے چھ ماہ بعد زولنگن میں بھی نیو نازیوں کی جانب سے آتش زنی کے ایک حملے میں پانچ غیر ملکی ہلاک ہوئے تھے۔

Deutschland Brandanschlag in Mölln Trauerfeier
تصویر: picture-alliance/dpa

موئلن کے باسیوں اور شہر کے میئر نے اس واقعے کے بعد دائیں بازو کی انتہا پسندی کو کم کرنے کے لیے مختلف اقدامات کیے۔ اس سلسلے میں کئی ایک منصوبے شروع کیے گئے تاہم تمام تر کوششوں کے باوجود موئلن اور اس کے نواحی علاقوں میں نیو نازی سوچ کے حامل افراد کی تعداد میں اضافہ ہی ہوا ہے۔

C.Walther/ai /aa