1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن سیاستدانوں کی جانب سے ترقیاتی امداد میں کمی کی دھمکی

6 مئی 2018

جرمنی کی مخلوط حکومت میں شامل جماعتوں سی ڈی یو اور سی ایس یو  کے سرکردہ سیاستدانوں نے ان ممالک کو دی جانے والی ترقیاتی امداد روکنے کی دھمکی دی ہے، جو جرمنی سے اپنے شہریوں ملک بدری اور واپسی کے عمل میں تعاون نہیں کر رہے۔

https://p.dw.com/p/2xFcY
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Puchner

چانسلر میرکل کی جماعت کرسچین ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) اور اس کی اتحادی پارٹی کرسچین سوشل یونین (سی ایس یو) کا کہنا ہے کہ جرمنی میں جن ممالک کے شہریوں کی سیاسی پناہ کی درخواستیں رد ہو چکی ہیں اور ان کی ملک بدری کے احکامات کے باوجود ان کے آبائی ممالک کی حکومتیں برلن حکومت سے تعاون نہیں کر رہیں، ان ریاستوں کو دی جانے والی ترقیاتی امداد کو یا تو کم یا پھر مکمل طور پر بند کر دیا جانا چاہیے۔

Abschiebeflug mit abgelehnten afghanischen Asylbewerbern
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Maurer

اس کی وجہ سی ڈی یو سے تعلق رکھنے والے جرمن صوبے سیکسنی کے وزیر اعلیٰ میشائل کریچمر نے یوں بیان کی کہ ملک بدری کے زیادہ تر فیصلوں پر عمل درآمد اس وجہ سے نہیں ہو پاتا کیونکہ جن ممالک کے شہریوں کو جرمنی سے واپس بھیجنا ہوتا ہے، ان کے جرمنی میں قائم سفارت خانے تعاون نہیں کرتے اور ملک بدری کے لیے ضروری کاغذات مہیا نہیں کرتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بہرحال اب اس مسئلے کا کوئی حل نکالا جانا لازمی ہے، ’’ایسا نہیں ہو سکتا کہ ایک طرف ہم ترقیاتی امداد دیں اور دوسری جانب یہ ممالک اپنے شہریوں کو واپس قبول نہ کریں۔‘‘

تارکِ وطن کی ملک بدری، جرمن پولیس اور مہاجرین میں تصادم

نصف سے زائد مہاجرین جرمن زبان کے امتحان میں فیل

شرابیوں نے دو مہاجرو‌ں پر کتے چھوڑ دیے

اسی طرح صوبے باویریا کے وزیر داخلہ یوآخم ہیرمان (سی ایس یو) نے تجویز پیش کی ہے، ’’عدم تعاون کا رویہ رکھنے والے ممالک کو ترقیاتی امداد جیسی رعایت نہیں دی جانا چاہیے۔‘‘ ان دونوں سیاستدانوں نے موجودہ شکل میں سیاسی پناہ کے درخواست گزاروں کو دی جانے والی سہولیات میں کمی کا مطالبہ بھی کیا ہے۔

کریچمر کے مطابق اس تناظر میں تمام یورپی ریاستوں میں قوانین ایک جیسے ہونا چاہیں، ’’ لوگوں کے پاس یہ اختیار نہیں ہونا چاہیے کہ وہ کسی بھی حکومت کی جانب سے دی جانے والی سہولیات کو دیکھتے ہوئے سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں اور باقاعدگی سے جرمنی کا رخ کریں۔‘‘

جرمنی میں اس موضوع پر بحث صوبے باڈن ورٹمبرگ میں رونما ہونے والے اس تازہ واقعے کے بعد شدید ہوئی ہے، جس میں ٹوگو سے تعلق رکھنے والے ایک تئیس سالہ نوجوان کو اٹلی بھیجا جانا تھا اور  ڈیڑھ سو کے قریب مہاجرین نے پولیس کی اس کارروائی میں رکاوٹیں ڈالنے کی کوشش کی تھی۔ بعد ازاں پولیس نے بھاری نفری کے ساتھ اس نوجوان کو حراست میں لے کر ملک بدری کے لیے قائم ایک مرکز میں پہنچا دیا تھا۔