1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بیٹی پاکستان لے جانے اور زبردستی شادی کروانے پر قید کی سزا

23 مئی 2018

برطانیہ میں ایک خاتون کو ساڑھے چار برس قید کی سزا سنا دی گئی ہے۔ اس خاتون نے اپنی سترہ سالہ بیٹی کو پاکستان لے جاتے ہوئے اس کی اپنی عمر سے سولہ برس بڑے شخص سے زبردستی شادی کر دی تھی۔

https://p.dw.com/p/2yDCy
Symbolbild Hochzeit Ehe Indien Pakistan
تصویر: Fotolia/davidevison

برطانیہ میں جبری شادی کے حوالے سے یہ اپنی نوعیت کا پہلا عدالتی فیصلہ ہے۔ عدالت کے مطابق سترہ سالہ لڑکی کو بہانے سے پاکستان لے جایا گیا تھا اور وہاں اس کی شادی مرضی کے خلاف اس سے بڑی عمر کے ایک شخص سے کر دی گئی تھی۔

جبری شادیوں کے خلاف سرگرم کارکنوں نے اس فیصلے کو تاریخی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے ایسے والدین کی حوصلہ شکنی ہو گی، جو بچوں کی شادیاں اپنی مرضی سے کرنا چاہتے ہیں اور دوسری جانب لڑکیاں زیادہ بااختیار ہوں گی اور انہیں اپنی آواز بلند کرنے کا حوصلہ ملے گا۔ برمنگھم کراؤن کورٹ کے مطابق لڑکی کی شادی اس سے سولہ برس بڑھے شخص سے اس وقت ہی طے کر دی گئی تھی، جب لڑکی کی عمر تیرہ برس تھی۔

پراسیکیوٹرز کے مطابق لڑکی حاملہ بھی ہو گئی تھی لیکن برطانیہ واپسی پر اس کا حمل ساقط کروایا گیا تھا۔ عدالت کی طرف سے والدہ کا نام نہیں بتایا گیا لیکن وہ اپنی بیٹی کو سن 2016 میں پاکستان لے کر گئی تا کہ وہ وہاں چھٹیاں گزار سکے لیکن وہاں پہنچ کر اسے اس کی شادی کی اطلاع دی گئی۔

عدالت کو بتایا گیا ہے کہ جب لڑکی نے شادی سے انکار کیا تو اسے تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور ساتھ ہی اس کی ماں نے اس کا برطانوی پاسپورٹ بھی جلا دینے کی دھمکی دی۔ پراسیکیوٹرز کے مطابق برطانوی ہائی کورٹ کے جج نے اس لڑکی کے پاکستان سے واپسی کے احکامات دیے تو اس کی والدہ نے دھمکی دیتے ہوئے لڑکی کے خلاف کالا جادو کروانے کا کہا اور اسے خاموش رہنے کی تلقین کی۔

برطانیہ میں سن 2014 سے جبری شادیوں پر پابندی عائد ہے اور اس کی سزا سات برس قید تک ہے۔ چالیس کے عشرے میں موجود والدہ کو ساڑھے تین برس کی سزا بیٹی کی زبردستی شادی کی وجہ سے دی گئی ہے اور اضافی ایک برس کی سزا عدالت کے سامنے جھوٹ بولنے کی وجہ سے۔

گزشتہ برس برطانوی اداروں کو تقریبا دو ہزار جبری شادیوں کی شکایات موصول ہوئی تھیں اور ان میں سے زیادہ تر لڑکیوں کا تعلق جنوبی ایشیائی والدین سے تھا۔ جبری شادیوں کے خلاف کام کرنے والے کارکنوں کے مطابق اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔

ا ا / ع ح