1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بی اے ایم ایف کیسے کام کرتا ہے؟

29 مئی 2018

سیاسی پناہ کی تلاش میں جرمنی کا رخ کرنے والے افراد میں سے کون پناہ کا مستحق ہے اور کون نہیں، یہ طے کرنا مہاجرت و ترک وطن کے وفاقی جرمن دفتر (بی اے ایم ایف) کی ذمہ داری ہے۔

https://p.dw.com/p/2yVQy
Deutschland - Bundesamt für Migration und Flüchtlinge BAMF in Berlin
تصویر: Reuters/F. Bensch

بی اے ایم ایف کی کیا ذمہ داریاں ہیں؟

جرمنی میں اس وفاقی ادارے کا قیام سن 2005 میں عمل میں آیا تھا۔ اس سے قبل اس ادارے کا نام ’غیر ملکی مہاجرین کو تسلیم کرنے کا وفاقی ادارہ‘ ہوا کرتا تھا جو 1953 میں جنیوا کنونشن میں جرمنی کی شمولیت کے بعد قائم ہوا تھا۔ پچاس کی دہائی میں اس ادارے کے ملازمین کی تعداد محض چالیس تھی تاہم اس کے قیام کے پہلے عشرے میں پناہ کی تلاش میں جرمنی کا رخ کرنے والے افراد کی تعداد بھی نہایت کم تھی۔

تاہم سوویت یونین یونین کے خاتمے بعد یہ صورت حال تیزی سے بدل گئی اور بڑی تعداد میں پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والے افراد کی درخواستوں کا جائزہ لینے کے لیے اس ادارے نے ملک بھر اڑتالیس مراکز قائم کیے، اور ادارے کے ملازمین کی تعداد بھی چار ہزار کر دی گئی تھی۔

سن 2005 میں اس ادارے کی تنظیمِ نو کے بعد اسے بی اے ایم ایف کا نام دے دیا گیا اور اس کی ذمہ داریوں میں بھی توسیع کر دی گئی۔ ادارے کو سیاسی پناہ کی درخواستوں پر فیصلے کیے جانے کے علاوہ تارکین وطن کو جرمن زبان سکھانے اور ان کے سماجی انضمام کے لیے اقدامات کرنے کی اضافی ذمہ داریاں بھی سونپ دی گئیں۔ علاوہ ازیں پناہ کے مسترد درخواست گزاروں کی ملک بدری کے انتظامات کرنے کا کام بھی بی اے ایم ایف کو دے دیا گیا۔

بی اے ایم ایف کے قیام کے بعد سے جرمنی مہاجرین اور تارکین وطن کو ابتدائی رجسٹرین کے مراکز میں آنا ہوتا ہے جہاں ان کا ابتدائی طبی معائنہ کیے جانے کے بعد ان کی شناختی دستاویزات کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ بعد ازاں بی اے ایم ایف کے اہلکار ان تارکین وطن کا انفرادی انٹرویو بھی لیتے ہیں۔

ابتدائی انٹرویو کیوں ضروری ہے؟

جرمنی میں سیاسی پناہ کے درخواست گزاروں کا انفرادی طور پر انٹرویو کیا جانا قانونی طور پر لازمی ہے۔ پناہ کے متلاشی افراد بی اے ایم ایف کے اہلکاروں کے ساتھ انفرادی انٹرویو کے دوران حکام کو بتاتے ہیں کہ انہیں اپنے ملک میں کیا خطرات لاحق تھے اور انہیں جرمنی میں پناہ کی ضرورت کیوں ہے۔

وفاقی جرمن ریاست بریمن میں بی اے ایم ایف کے علاقائی دفتر نے اسی قانونی تقاضے پر عمل نہیں کیا تھا اور قریب بارہ سو تارکین وطن کو ابتدائی انٹرویو کے بغیر ہی مہاجر تسلیم کرتے ہوئے جرمنی میں پناہ دے دی گئی تھی۔

سن 2015 میں جرمنی میں لاکھوں مہاجرین کی آمد کے بعد بی اے ایم ایف کے اہلکاروں کے لیے ہر پناہ گزین کا مفصل انفرادی انٹرویو کرنا ایک مشکل مرحلہ تھا۔ ادارے پر کام کے اسی دباؤ کے باعث فرانکو اے نامی ایک جرمن شہری بھی خود کو بطور مہاجر رجسٹر کرانے میں کامیاب رہا تھا۔

بی اے ایم ایف کے اہلکار کتنے تربیت یافتہ ہیں؟

جرمنی میں پناہ کے درخواست گزاروں کی تعداد سن 2014 ہی میں بڑھنا شروع ہو گئی تھی اور سن 2015 میں قریب ایک ملین افراد نے جرمنی میں سیاسی پناہ کے حصول کے لیے درخواستیں جمع کرائی تھیں۔ تاہم وفاقی حکومت نے اس وقت بی اے ایم ایف کے اہلکاروں کی تعداد میں اضافہ نہیں کیا تھا جس کی وجہ سے درخواستیں نمٹانے میں زیادہ وقت صرف ہو رہا تھا۔

سن 2016 میں چانسلر میرکل نے فرانک یُرگن وائزے کو بی اے ایم ایف کا سربراہ تعینات کیا جو اس وقت جرمنی کے وفاقی دفتر روزگار کے سربراہ بھی تھے۔ انتظامی امور میں وسیع تجربہ رکھنے والے وائزے نے ادارے کی کارکردگی نمایاں طور پر بہتر بنائی۔

Infografik Anzahl der Asylanträge in Deutschland 1990 - 2017
سن 1990 تا 2017 - جرمنی میں سیاسی پناہ کی درخوستوں کی تعداد کا گراف

وفاقی حکومت نے بھی ادارے میں سات ہزار تین سو نئے ملازمین بھرتی کرنے کے علاوہ مختلف سرکاری اداروں سے تعلق رکھنے والے سولہ سو اہلکاروں کو عارضی طور پر بی اے ایم ایف میں تعینات کر دیا۔ وقت کی قلت اور درخواستوں کی بڑی تعداد کے پیش نظر ان تمام اہلکاروں کو پناہ کی درخواستوں پر فیصلے کرنے کے لیے باقاعدہ تربیت فراہم نہیں کی جا سکتی تھی، اس لیے انہیں صرف ’کریش کورس‘ کروا کر ہی پناہ کی درخواستیں نمٹانے کا مشکل کام سونپ دیا گیا۔

بی اے ایم ایف کس کی نگرانی میں کام کرتا ہے؟

یہ وفاقی ادارہ ملکی وزارت داخلہ کے تحت کام کرتا ہے اور اس کی نگرانی کے لیے کوئی غیر جانب دار کمیٹی نہیں ہے۔ اس ادارے کو سیاسی پناہ کی درخواستوں پر فیصلوں کے بارے میں اپنی سالانہ رپورٹ لازمی طور پر برلن حکومت کو پیش کرنا پڑتی تھی تاہم سن 2013 میں وفاقی وزارت داخلہ نے اس ادارے کو سالانہ رپورٹ پیش کرنے سے استثنیٰ فراہم کر دیا۔

بریمن میں مبینہ طور پر رشوت لے کر اور خلاف ضابطہ پناہ دیے جانے کے واقعات سامنے آنے کے بعد اس استثنیٰ کو ختم کر دیا گیا ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر کے پارلیمانی سیکریٹری اسٹیفان مائیر کا کہنا ہے کہ بریمن اسکینڈل کے بعد سے بی اے ایم ایف میں کئی طرح کی اصلاحات متعارف کرا دی گئی ہیں۔ ستمبر سن 2017 کے بعد سے پناہ کی ہر درخواست پر کم از کم دو افراد فیصلہ کر رہے ہیں۔

بی اے ایم ایف کا مستقبل کیا ہے؟

بریمن میں مبینہ طور پر رشوت لے کر پناہ دیے جانے کے اسکینڈل کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ وفاقی وزیر داخلہ کے مطابق اس کے علاوہ علاقائی دفتر کے قریب دو ہزار فیصلوں کا از سر نو جائزہ بھی لیا جا رہا ہے جب کہ بی اے ایم ایف بریمن شاخ کو تحقیقات مکمل ہونے تک مزید فیصلے کرنے سے بھی روک دیا گیا ہے۔

مؤقر جرمن جریدے ’اشپیگل‘ کے مطابق تحفظ آئین کے وفاقی جرمن ادارے اور جرائم کی تحقیقات کرنے والے وفاقی ادارے کو بھی بی اے ایم ایف کی بریمن شاخ میں کی جانے والی مبینہ بے ضابطگیوں کی تفتیش کرنے والی کمیٹی میں شامل کر لیا گیا ہے۔

تاہم موجودہ صورت حال میں بی اے ایم ایف بطور ادارہ اور اس کی سربراہ یوٹا کورڈٹ سمیت وفاقی جرمن حکومت کو بھی شدید دباؤ کا سامنا ہے۔

ش ح/ ص ح (یولیا ورجن، ڈی ڈبلیو)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید