1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت کے نئے 'دھرتی پکڑ': 20الیکشن ہارنے کے باوجود میدان میں

جاوید اختر، نئی دہلی
7 نومبر 2023

بھارت میں الیکشن میں مسلسل شکست کے باوجود ڈٹے رہنے والے امیدواروں کو "دھرتی پکڑ" کہا جاتا ہے۔ 350 سے زائد انتخابی شکست کا عالمی ریکارڈ کاکا جوگندر سنگھ کے نام ہے، جو تقسیم کے بعد پاکستان سے بھارت آئے تھے۔

https://p.dw.com/p/4YUpS
بھارت میں ہر اس شہری کو مقامی بلدیہ سے لے کر صدر جمہوریہ کے عہدے تک کے انتخابات میں حصہ لینے کا حق حاصل ہے، جو مقررہ شرائط پوری کرتا ہو
بھارت میں ہر اس شہری کو مقامی بلدیہ سے لے کر صدر جمہوریہ کے عہدے تک کے انتخابات میں حصہ لینے کا حق حاصل ہے، جو مقررہ شرائط پوری کرتا ہوتصویر: DW/O. Singh Janoti

تیتر سنگھ جیسی 'ہمت' کم لوگوں میں ہی دیکھنے کو ملتی ہے، جو پچھلے 50 سالوں میں 20 الیکشن ہارنے کے باوجود ایک بار پھر میدان میں ہیں۔ راجستھان کے 78سالہ تیتر سنگھ 25 نومبر کو ہونے والے ریاستی اسمبلی انتخابات میں آزاد امیدوار کے طورپر ایک بار پھر اپنی قسمت آزمارہے ہیں۔

حالانکہ 350 سے زائد شکست کا عالمی ریکارڈ کاکا جوگندر سنگھ کے نام ہے، جو تقسیم کے بعد پاکستان سے بھارت آئے تھے- ناگرمل بجوریا کا تمام 282 الیکشن ہارنے کا ریکارڈ ہے۔ بہار کے بھاگلپور میں رہنے والے بجوریا بھی تقسیم وطن کے بعد پاکستان کے لاہور سے آئے تھے۔

 پسماندہ دلت طبقے سے تعلق رکھنے والے یومیہ مزدور تیتر سنگھ نے پہلی مرتبہ 1970کی دہائی میں اس وقت الیکشن لڑا تھا جب انہیں یہ محسوس ہوا کہ ان جیسے لوگوں کو سرکاری زمین کے الاٹمنٹ سے محروم کردیا گیا ہے۔ انہوں نے حکومت کی طرف سے بے زمین اور غریب مزدوروں کو زمین الاٹ کرنے کے مطالبے پر الیکشن لڑنا شروع کیا اور ہر الیکشن میں اپنی یہ مانگ دہراتے رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پچاس برس گزر جانے کے باوجود ان کا یہ مطالبہ آج تک پورا نہیں ہو سکا۔

مودی حکومت کی نئی پہل: 'ایک ملک، ایک انتخاب' زیرغور

کرن پور اسمبلی حلقے سے آزاد امیدوار کی حیثیت سے آئندہ الیکشن میں امیدوار تیتر سنگھ کہتے ہیں، "میں آخر الیکشن کیوں نہ لڑوں؟ یہ الیکشن ہمارے حقوق کے لیے جنگ ہے۔ یہ ہمارے حقوق کے حصول کا ہتھیار ہے، جس کی دھار وقت گزرنے کے باوجود کند نہیں ہوئی ہے۔"

تیتر سنگھ اب تک پنچایت سے لے کر پارلیمانی ہر انتخابات میں حصہ لے چکے ہیں اور انہیں ہر الیکشن میں شکست کا منہ دیکھنا پڑا اور اپنی ضمانت گنوانی پڑی ہے۔ تاہم وہ کہتے ہیں کہ الیکشن میں حصہ لینے کا ان کا مقصد مقبولیت حاصل کرنا یا ریکارڈ بنانا نہیں ہے۔

میدان نہ چھوڑنے والے یعنی 'دھرتی پکڑ'

بھارت میں ہر اس شہری کو مقامی بلدیہ سے لے کر صدر جمہوریہ کے عہدے تک کے انتخابات میں حصہ لینے کا حق حاصل ہے، جو مقررہ شرائط پوری کرتا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ پنچایت سے لے کر صدر جمہوریہ تک کے انتخابات میں ڈھیر سارے امیدوار میدان میں نظر آتے ہیں حالانکہ ان میں سے بیشتر محض شہرت کے لیے ایسا کرتے ہیں جب کہ بعض اوقات سیاسی جماعتیں بھی انتخابی فائدے کے لیے ڈمی امیدوار کھڑے کرتی ہیں۔

بھارت میں کوئی الیکشن جناح کے بغیرمکمل کیوں نہیں ہوتا ہے؟

الیکشن میں مسلسل شکست کے باوجود ڈٹے رہنے والے امیدواروں کے لیے بھارت میں "دھرتی پکڑ" کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ اس نام سے ایک مزاحیہ ٹیلی ویژن سیریل بھی بنا تھا۔ کم از کم تین دھرتی پکڑ بھارت میں کافی مشہور ہوئے ہیں۔ جنہوں نے وزیر اعظم سے لے کر ممکنہ صدر جمہوریہ تک کے خلاف مقابلہ کیا۔ ان میں کاکا جوگندرسنگھ، موہن لال اور ناگرمل بجوریا شامل ہیں۔

بھارتی پارلیمان کے الیکشن میں حصہ لینے کے لیے کم ازکم عمر ۲۵سال ہونی چاہیے
بھارتی پارلیمان کے الیکشن میں حصہ لینے کے لیے کم ازکم عمر ۲۵سال ہونی چاہیےتصویر: AP Photo/picture alliance

سب سے زیادہ شکست کا ریکارڈ کس کے نام؟

'دھرتی پکڑ' کا سب سے پہلا خطاب 1918 میں پاکستان کے گوجرانوالہ میں پیدا ہونے والے کاکا جوگندر سنگھ کو ملا، جنہوں نے 350 سے زائد الیکشن میں حصہ لیا اور ہر ایک میں شکست سے دوچار ہوئے، لیکن اس کے باوجود 1998میں انتقال سے قبل تک ہار نہیں مانی۔

بریلی کے رہنے والے جوگندر سنگھ نے کشمیر سے کنیا کماری تک 14ریاستوں سے آزاد امیدوار کے طورپر انتخابات میں حصہ لیا۔ وہ ہر مرتبہ اپنی ضمانت گنوانے کے بعد کہا کرتے تھے کہ "یہ قومی خزانے میں ان کی طرف سے معمولی عطیہ ہے۔"

ان کا وعدہ تھا کہ الیکشن میں کامیاب ہونے کے بعد تمام غیر ملکی قرضے واپس کردیں گے، اسکولوں میں کردار سازی کو فروغ دیں گے اور بھارتی معیشت کو بلندیوں تک پہنچانے کے 'بارٹر' سسٹم واپس لائیں گے۔

بھارت: چودہ سو کروڑ روپے کا مالک لیکن امیر نہ ہونے کا شکوہ

کاکا جوگندر سنگھ کی سب سے بڑی حصولیابی 1991 کا صدارتی الیکشن تھا جب وہ 1135 ووٹ حاصل کر کے چوتھے نمبر پر آئے۔

200 سے زائد انتخابات میں شکست کا ریکارڈ رکھنے والے ڈاکٹر کے پدما راجن نے 2019 میں کانگریس کے رہنما راہول گاندھی کے خلاف الیکشن لڑا تھا
200 سے زائد انتخابات میں شکست کا ریکارڈ رکھنے والے ڈاکٹر کے پدما راجن نے 2019 میں کانگریس کے رہنما راہول گاندھی کے خلاف الیکشن لڑا تھاتصویر: Payel Samanta/DW

'جیت گیا تو ہارٹ فیل ہوجائے گا'

ناگرمل بجوریا کا تعلق بھی پاکستان کے لاہور سے ہے۔ وہ تقسیم ملک کے بعد بہار کے بھاگلپور ضلع میں آکر بس گئے۔ انہوں نے 282 الیکشن میں حصہ لیا اور ہر ایک میں شکست سے دوچار ہوئے۔ بجوریا کا تاہم کہنا تھا، "میں جمہوریت میں ایک عام آدمی کی اہمیت کو اجاگر کرنا اور اسے ثابت کرنا چاہتا ہوں۔ ہار جیت کی میری زندگی میں کوئی اہمیت نہیں ہے۔"

تیسرے مشہور 'دھرتی پکڑ' موہن لال کا تعلق بھوپال سے ہے۔

تمل ناڈو کے سالیم ضلعے سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر کے پدما راجن بھی 200 سے زائد انتخابات میں شکست کا ریکارڈ رکھنے والوں میں شامل ہیں۔ انہوں نے 2019 میں کانگریس کے رہنما راہول گاندھی کے خلاف الیکشن لڑا تھا۔

’بھارتی الیکشن کمیشن پر قتل کا مقدمہ چلایا جائے‘

وہ سابق وزرائے اعظم اٹل بہاری واجپئی، من موہن سنگھ، پی وی نرسمہا راو، سابق صدور پرنب مکھرجی، پرتبھا پاٹل، کے آر نارائنن اور اے پی جے عبدالکلام کے علاوہ کئی اہم ریاستی رہنماوں کے خلاف بھی الیکشن لڑ چکے ہیں۔

 پدماراجن مزاحاً کہتے ہیں، "اگر میں الیکشن جیت گیا تو میرا تو ہارٹ فیل ہو جائے گا۔"