بچت منصوبوں کے خلاف یورپ بھر میں مظاہرے
30 ستمبر 2010یورپی یونین کے مرکز بیلجیم کے دارالحکومت برسلز ہوئے مظاہرے کے شرکاء 30 ممالک سے وہاں جمع ہو ئے۔ اسے گزشتہ کئی دہائیوں میں شہر کی تاریخ کا سب سے بڑا احتجاجی مظاہرہ قرار دیا گیا۔ اس موقع پر یورپی یونین کے صدر دفاتر پر پولیس کی بھاری نفری تعینات تھی۔
سپین میں 2002ء کے بعد پہلی مرتبہ عام ہڑتال ہوئی جبکہ پرتگال سے پولینڈ تک دیگر شہروں میں بھی احتجاجی مظاہرے دیکھے گئے تاہم ان مظاہروں کا مرکز برسلز ہی تھا جہاں ہزاروں افراد نے بچت کے منصوبوں کے خلاف آواز بلند کی۔
مظاہرین میں فرانسیسی ٹریڈ یونین CGT کے سربراہ Bernard Thibault بھی شامل تھے۔ انہوں نے کہا، ’ہم یہاں بڑھتے ہوئے بچت منصوبوں کے خلاف جمع ہوئے ہیں اور پھر چاہے یہ منصوبے یورپی حکومتیں اختیار کر رہی ہوں یا یورپی ادارے۔‘
انہوں نے مزید کہا، ’ہمارا پیغام یہ ہے کہ مالیاتی بحران کے ساتھ ایسے سماجی بحران سے بچا جائے، جس کی مثال نہ ہو اور جس کی قیمت مزدور طبقے کو چکانی پڑے۔‘
خبررساں ادارے اے ایف پی نے مختلف ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ برسلز میں مظاہرین کی تعداد ایک لاکھ تک تھی۔ پولیس کے مطابق اس موقع پر 218 افراد کو نقص امن پیدا کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔
ایک ایسے وقت میں جب یورپ مالیاتی بحران کے اثرات سے نکل رہا ہے، ملازمتوں میں کٹوتیوں پر غم و غصہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے۔ اس خطے میں اقتصادی بحران کے باعث ہزاروں افراد ملازمتیں کھو چکے ہیں جبکہ کفایت شعاری کے حکومتی منصوبوں کے باعث مزید نوکریاں جانے کا خدشہ ہے۔
سپین میں شرح بے روزگاری دگنی ہو چکی ہے۔ وہاں ہر پانچ میں سے ایک ورکر بے روزگار ہے۔ اس کے دارالحکومت میڈرڈ میں بدھ کو ہونے والے ہڑتال کے موقع پر مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں۔ شہر کے حالات کے باعث متعدد فضائی کمپنیوں نے اپنی پروازیں منسوخ کر دیں۔
سائپرس، یونان، اٹلی، لٹویا اور ہالینڈ میں بھی ایسی ہی ریلیوں کا اہتمام کیا گیا تھا، جہاں لیبر رہنماؤں نے شرح نمو بڑھانے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ مالیاتی شعبے کی غلطیوں کا خمیازہ ورکرز کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔
اُدھر ڈبلن میں مظاہرے کے موقع پر ایک شخص نے ایک ٹرک پارلیمنٹ کے مرکزی دروازے سے ٹکرا دیا، جس کے بعد پولیس نے اس شخص کو گرفتار کرلیا۔
رپورٹ: ندیم گِل
ادارت: عاطف بلوچ