یورپ میں ہڑتالوں کی متوقع نئی لہر
9 ستمبر 2010تاہم یہ ریلیاں اور احتجاج نہ تو حکومتوں کو ہلاسکتی ہیں اور نہ ہی پنشنوں اور تنخواہوں میں کمی کے ان کے فیصلوں میں کسی تبدیلی کا باعث بن سکتی ہیں۔ ماہرین کے مطابق پچھلی صدی کے دوران مزدور تنظیمیں اور اتحادوں کا جو اثرورسوخ رہا ہے اب اس میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ مزید یہ کہ یہ تنظیمیں ایسے لوگوں کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہی ہیں جو برِصغیر اور یورپ میں مالیاتی بحران پر قابو پانے کے لئے ایسے کفایت شعاری اور بچتی منصوبوں کے خلاف ہیں۔
آئی ایچ ایس گلوبل انسائٹ نامی ادارے کی ماہر برائے یورپ بلانکا کولینکوا کا کہنا ہے کہ بہت سے یورپی ممالک کی عوام کو یہ بات معلوم ہے کی موجودہ حالات میں کفایت شعاری کے منصوبوں کی ضرورت ہے،کیونکہ اگر حکومتوں نے ایسے اقدامات نہیں اُٹھائے تو انہیں بھی یونان جیسے حالات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
فرانس میں پنشن میں کمی کے نئے اقدامات کے خلاف مزدور یونینوں نے ایک واک کا انتظام کیا جس میں سرکاری اعدا و شمار کے مطابق تقریباﹰ 11 لاکھ افراد نے شرکت کی۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ مجمع جتنا بھی بڑا ہو وہ موجودہ حکومت کے فیصلوں نہیں بدل سکتا۔
منگل سات ستمبر کو لندن کے شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جب لندن میٹرو کے ملازمین نے نوکریوں میں کمی اور نئے بچتی منصوبوں کے خلاف ہرتال کی۔ یونان، اسپین، اٹلی اور رومانیہ میں بھی حکومتوں کو بڑھتے ہوئے ٹیکس کی وجہ سے ایسے ہی حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور ابھی تنخواہوں اور عوامی خدمات کے حوالے سے خرچوں میں کمی کی وجہ سے ایسی ہڑتالوں اور احتجاجی ریلیوں کی ایک نئی لہر شروع ہونے والی ہے۔
یونان میں اس ویک اینڈ پر مزدور تنظیمیں شمالی شہر تھیسالونیکی میں وزیرِاعظم جارج پاپاندریو کی آمد پر متعدد ریلیاں نکالنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ یونان میں حالیہ معاشی بحران پر قابو پانے کے لئے منظور کیے گئے بچتی کی وجہ سے ہڑتالیں، احتجاجی ریلیاں اور واک منعقد کی گئیں، جس نے یونان کی سیاحتی صنعت کو بہت نقصان پہنچایا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بڑی تعداد میں ہڑتالیں، احتجاج اور ریلیاں یونان جیسی معشیتوں کو نقصان پہنچا سکتی ہے مگر یہ سب کچھ حکومت کو اس کے فیصلہ بدلنے پر مجبور نہیں کر سکتے، کیونکہ مشرقی اور وسطی یورپ میں بہت سے ممالک IMF کے قرضوں میں پھنسے ہوئے ہیں اور اس لئے ان کے پاس ان اقدامات کے علاوہ کوئی اور چارہ بھی نہیں ہے۔ لندن کی برونل یونیورسٹی کے سیاسی ماہر پروفیسر جسٹن فشر کاکہنا ہے کہ وہ دن ختم ہوچکے ہیں جب مزدور تنظیمیں حکومتوں کو اپنے مطالبات کے ذریعے یرغمال بنالیتی تھیں، تاہم اس کا یہ مطلب بھی نہیں یہ کوئی خاص نقصان پہنچانے کی صلاحیت نہیں رکھتیں۔
ماہرین کے مطابق ایسے حالات میں سب سے زیادہ خطرہ نوجوانوں کی طرف سے ہوتا ہے جو گوکہ ایسی تنظیموں کے کنٹرول میں نہیں ہوتے تاہم وہ بے روزگاری سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ ایتتھنز یونیورسٹی کے سیاسی ماہر کوسٹاس انفانٹس کا کہنا ہے کہ چونکہ نوجوان مشکلات سے زیادہ پریشان ہوتے ہیں اور مستقبل کے بارے میں زیادہ فکرمند بھی، لہذا ان کی شمولیت سے ہڑتالیں اور احتجاج زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔
رپورٹ : سمن جعفری
ادارت : افسر اعوان