1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلوچستان: پرتشدد واقعات میں اضافہ، حکومت پر دباؤ بڑھتا ہوا

عبدالغنی کاکڑ، کوئٹہ10 فروری 2014

بلوچستان کے کالعدم علیحدگی پسند گروپوں اور حکومت کے مابین متوقع مذاکرات حالیہ پرتشدد واقعات کے بعد ایک بار پھر تعطل کا شکار ہو گئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1B6My
تصویر: DW/A. Ghani Kakar

سکیورٹی فورسز کی حالیہ کارروائیوں کے رد عمل میں بلوچ مسلح تنظیموں نے اپنے حملے تیز کرتے ہوئے ان کا دائرہ کار ملک کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب تک بڑھانے کا اعلان کیا ہے۔ حالیہ حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے والی کالعدم بلوچ ریپبلکن آرمی نے پنجاب میں اپنے دیگر اہداف پر بھی حملوں کی دھمکی دی ہے جبکہ دوسری طرف سکیورٹی فورسز نے بھی ان شدت پسند کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائیاں تیز کر دی ہیں۔ سندھ اور بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران سات شدت پسند مسلح مقابلوں میں ہلاک کیے جا چکے ہیں۔

بلوچستان کی کالعدم مسلح تنظیموں نے اپنی پر تشدد کارروائیوں میں اضافہ اور ان کا دائرہ کار پنجاب تک بڑھانے کا اعلان ایسے وقت پر کیا ہے جب صوبے میں قیام امن کے لیے سکیورٹی فورسز کی جانب سے ان کے خلاف خصوصی آپریشن شروع کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ان کے ان مشتبہ ٹھکانوں کے خلاف صوبے کے مختلف علاقوں میں کارروائی بھی عمل میں لائی جا رہی ہے، جہاں سے شہری علاقوں اور قومی تنصیبات پر حملوں کی منصوبہ بندی ہوتی ہے۔

Pakistan eroberte Waffen in Balutschistan
بلوچستان میں سکیورٹی فورسز کی طرف سے عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں سے قبضے میں لیے گئے ہتھیارتصویر: DW/A. Ghani Kakar

دفاعی امور کے سینئر تجزیہ کار پروفیسر حسن عسکری رضوی کے بقول یہ حکومت مخالف کالعدم تنظیمیں اپنے مفادات کے لیے ملکی امن کو تباہ کرنا چاہتی ہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ وہ اپنے حملوں میں تیزی لا کر حکومت کو دباؤ میں لا سکیں۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ’’بلوچ تحریک کی جو تنظیمیں ہیں، وہ یہ چاہتی ہیں کہ حکومت دباؤ میں آئے اور وہ سمجتھی ہیں کہ جب تک وہ اپنی کارروائیاں نہیں بڑھائیں گی، دیگر صوبوں بالخصوص پنجاب تک، شاید ان کا مقصد پورا نہ ہو اور حکومت کے رویے میں کوئی تبدیلی نہ آئے۔ اسی لیے اب یہ لوگ اپنے حملوں میں تیزی لا رہے ہیں۔‘‘

پنجاب میں ہونے والے حالیہ حملوں اور بلوچستان میں قدرتی گیس کی تنصیبات پر حملوں میں ملوث کالعدم بلوچ ریپبلکن آرمی نامی تنظیم جو کہ پرویز مشرف کے دور میں ڈیرہ بگٹی میں نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت کے بعد منظر عام پر آئی تھی، اس تنظیم کے حملوں کا مرکز عموماﹰ ملک میں قومی تنصیبات اور شہری علاقے رہے ہیں جن کے نتیجے میں قیمتی جانوں کے ضیاع کے ساتھ ساتھ قومی تنصیبات کو بھی اب تک اربوں روپے کا نقصان پہنچا ہے۔ تاہم بلوچستان کے وزیر اطلاعات عبدالرحیم زیارتوال کا کہنا ہے کہ حکومت اس معاملے کو افہام و تفہیم سے حل کرنا چاہتی ہے اور اس کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں۔

’’یہ تمام مسائل جو پیدا ہوئے ہیں، ان کی وجہ محرومیاں اور نا انصافیاں ہیں۔ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ ان کا سنجیدگی سے حل نکالیں اور جمہوری طور پر ان لوگوں سے رابطہ کر کے انہیں مذاکرات کے لیے راضی کریں جو کہ صوبے میں بد امنی پھیلا رہے ہیں۔‘‘

خیال رہے کہ بلوچستان میں خضدار کے علاقےسے دریافت ہونے والی اجتماعی قبروں سے بلوچ سیاسی کارکنوں کی لاشوں کی برآمدگی کا ذمہ دار بھی بلوچ مسلح تنظیمیں سکیورٹی اداروں کو سمجھتی ہیں اور ان حملوں میں تیزی کی ایک اہم وجہ یہ بھی قرار دی جا رہی ہے۔