1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایک کروڑ لوگوں کا کوئی وطن نہیں

امجد علی4 نومبر 2014

دنیا بھر میں دَس ملین افراد کے پاس کسی بھی ملک کی شہریت نہیں ہے اور یوں اُنہیں کوئی قانونی تحفظ بھی حاصل نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کا پناہ گزینوں سے متعلق ادارہ UNHCR اگلے عشرے کے اندر اندر اس صورتِ حال کو بدلنا چاہتا ہے۔

https://p.dw.com/p/1DgZp
تین نومبر کو یُو این ایچ سی آر کے سربراہ انتونیو گتیریس جنیوا میں بے وطن لوگوں کے حق میں تحریک کے حوالے سے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے ہیں
تین نومبر کو یُو این ایچ سی آر کے سربراہ انتونیو گتیریس جنیوا میں بے وطن لوگوں کے حق میں تحریک کے حوالے سے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa/S. Di Nolfi

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین انتونتیو گتیریس نے منگل سے شروع ہونے والی ایک تحریک کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے جنیوا میں بتایا کہ دنیا میں ’ہر دَس منٹ بعد ایک نیا بے وطن شہری پیدا ہو رہا ہے‘۔ اُنہوں نے اس صورتِ حال کو ’مکمل طور پر ناقابلِ برداشت‘ اور ’اکیس ویں صدی کے تقاضوں سے مکمل طور پر غیر ہم آہنگ‘ قرار دیا۔

یُو این ایچ سی آر کی اِس تحریک کا مقصد انسانوں پر عمر بھر مرتب ہونے والے بے وطنیت کے تباہ کن اثرات کو نمایاں کرنا اور مختلف ممالک پر اس بات کو یقینی بنانے کے لیے زور دینا ہے کہ کوئی بھی شخص شہریت کے حق اور تشخص سے محروم نہ رہے۔ اس سلسلے میں دَس ملین دستخط جمع کرنے کی ایک مہم بھی شروع کی گئی ہے۔

یُو این ایچ سی آر کی خصوصی سفیر اداکارہ انجیلینا جُولی
یُو این ایچ سی آر کی خصوصی سفیر اداکارہ انجیلینا جُولیتصویر: Reuters

اپنی تازہ رپورٹ میں اس عالمی ادارے نے کہا ہے کہ کسی بھی ملک کا پاسپورٹ نہ رکھنے والے انسانوں کو بچپن سے بڑھاپے تک قانونی شناخت کے مسائل سے لے کر تعلیم و تربیت، صحت، شادی، ملازمت، حتیٰ کہ انتقال کی صورت میں ڈیتھ سرٹیفیکیٹ تک کے معاملات میں قدم قدم پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انتونیو گتیریس نے کہا:’’بے وطنی کی حالت میں لوگوں کو ایسا لگتا ہے کہ جیسے اُن کا وجود ہی ایک جرم ہو۔‘‘

لوگ کئی مختلف وجوہات مثلاً نسل، مذہب یا جنس کی بناء پر ہونے والے امتیازی سلوک کے باعث بے وطن ہوتے ہیں یا پھر تب، جب کوئی ملک ٹوٹ جاتا ہے۔ جنگوں اور تنازعات کی صورت میں بھی نومولود بچوں کی رجسٹریشن اکثر مشکل ہو جایا کرتی ہے۔

گتیریس کا کہنا تھا کہ اُن کے ادارے کی رپورٹ میں فلسطینیوں کو شامل نہیں کیا گیا کیونکہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی ریاستِ فلسطین کو تسلیم کر چکی ہے۔ تاہم مغربی کنارے اور غزہ پٹی کے 4.5 ملین اور دنیا کے دیگر ممالک میں بکھرے ہوئے مزید کئی ملین فلسطینیوں کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ ابھی بطور ایک ریاست کے فلسطین کی جانب سے شہریت سے متعلق قوانین کی توثیق ہونا باقی ہے۔

انتونیو گتیریس نے بتایا کہ آج کل بے وطن لوگوں کا سب سے بڑا گروپ میانمار میں ہے، جہاں حکومت کوئی ایک ملین روہنگیا مسلمانوں کو شہریت کے حقوق دینے سے یہ کہتے ہوئے انکار کر رہی ہے کہ وہ بنگلہ دیش سے گئے ہوئے غیر قانونی تارکین وطن ہیں۔ دوسری طرف جب یہی مسلمان واپس بنگلہ دیش پہنچتے ہیں تو وہاں بھی انہیں غیر قانونی تارکین وطن قرار دیا جاتا ہے۔

جنوبی افریقہ کے بشپ ڈیزمنڈ ٹوٹو بھی بے وطن لوگوں کے حق میں جاری کیے جانے والے کھلے خط پر دستخط کرنے والوں میں شامل ہیں
جنوبی افریقہ کے بشپ ڈیزمنڈ ٹوٹو بھی بے وطن لوگوں کے حق میں جاری کیے جانے والے کھلے خط پر دستخط کرنے والوں میں شامل ہیںتصویر: Getty Images/AFP

اسی طرح اگرچہ سوویت یونین کو ٹوٹے بیس سال بیت چکے ہیں تاہم اس بڑی سیاسی تبدیلی کے نتیجے میں بے وطن ہونے والے کوئی چھ لاکھ انسان دو عشروں بعد بھی اسی حالت میں ہیں۔

یُو این ایچ سی آر کے سربراہ نے بتایا کہ ہمسایہ ملکوں لبنان اور اردن میں شامی مہاجرین کے ہاں پیدا ہونے والے ستّر فیصد بچوں کو مکمل قانونی پیدائشی سرٹیفیکیٹ نہیں مل سکے ہیں۔ پھر ایران اور قطر جیسے ملکوں میں مردوں کو تو اپنی قومیت اپنے بچوں کو منتقل کرنے کا حق حاصل ہے لیکن اکثر صورتوں میں خواتین کو یہ حق نہیں دیا جاتا۔

بے وطنیت کی غالباً نمایاں ترین مثال نامور سائنسدان البرٹ آئن سٹائن کی ہے، جو 1896ء میں جرمن شہریت ترک کر دینے کے بعد سے 1901ء تک بے وطن رہے، جب اُنہوں نے سوئٹزرلینڈ کی شہریت اختیار کی۔

ایک کھلے خط میں، جس پر انتونیو گتیریس کے ساتھ ساتھ یُو این ایچ سی آر کی خصوصی سفیر اداکارہ انجیلینا جُولی اور امن کا نوبیل انعام پانے والی شخصیات شیریں عبادی اور ڈیزمنڈ ٹُوٹُو سمیت کوئی بیس شخصیات نے دستخط کیے ہیں، بے وطن انسانوں کی ابتر حالت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔

اس عالمی ادارے کے مطابق اچھی خبر یہ ہے کہ گزشتہ ایک عشرے کے دوران قانون سازی اور تبدیل شُدہ پالیسیوں کی وجہ سے چار ملین سے زیادہ انسانوں کو شہریت کا حق ملا ہے۔ ان میں اردو زبان بولنے والے وہ تین لاکھ افراد بھی شامل ہیں، جنہیں 2008ء میں ایک عدالتی حکم کے ذریعے بنگلہ دیش کی شہریت دیے جانے کا حق ملا تھا۔