1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایک مختلف ترکی کا خواب

عدنان اسحاق جولیا ہان
28 مئی 2018

2013ء میں ہزاروں ترک شہریوں نے صدر ایردوآن کی آمرانہ طرز سیاست کے خلاف مظاہرہ کیا تھا۔ اگلے صدارتی انتخابات کی مہم میں بھی ان واقعات کو ماضی کی نسبت زیادہ شدت سے یاد کیا جا رہا ہے۔ استنبول سے جولیا ہان کی رپورٹ۔

https://p.dw.com/p/2yRxr
Türkei Proteste gegen die Regierung in Izmir
تصویر: Getty Images/AFP/O. Kose

گایے بورولیوگلو ایک مصنفہ ہیں۔ وہ تقسیم اسکوائر پر کھڑے ہو کر بتا رہی ہیں، ’’گیزی مظاہروں کے بعد یہاں پر سب کچھ ختم کر دیا گیا تھا۔ سڑکوں اور درختوں کی جگہ اب یہاں پر صرف کنکریٹ ہی دکھائی دیتا ہے۔‘‘ تقسیم اسکوائر ہی ایردوآن مخالف مظاہروں کا مرکز تھا۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ شہر کے مرکز میں پانچ سال قبل کے مظاہروں کے بارے میں کسی کو بھی کچھ یاد نہیں۔ ایردوآن اس وقت ترکی کے وزیر اعظم تھے۔

گایے بورولیوگلو کہتی ہیں، ’’گیزی مظاہرے ایک توانائی تھی، بغاوت تھی اور طنز بھی تھا۔ یہ ایک مختلف معاشرے کے قیام کے حوالے سے ہماری امید بھی تھی۔‘‘ پانچ سال قبل مظاہرین نے استنبول کے تقسیم اسکوائر کے قریب واقع گیزی پارک میں دھرنا دیا تھا۔ ان مظاہروں میں پانچ افراد ہلاک اور آٹھ ہزار سے زائد سے زخمی ہوئے تھے۔

Türkei, Istanbul: Schriftstellerin Gaye Boralıoğlu hat die Gezi-Proteste 2013 miterlebt
گایے بورولیوگلو نے گیزی مظاہروں سے متعلق اپنی تمام یادوں کو ادبی انداز دیا ہےتصویر: DW/J. Hahn

صرف ایک پارک نہیں

گیزی پارک میں اس وقت کی حکومت کے خلاف لبرل، قوم پرست، فٹ بال کے مداح، کرد اور سر ڈھانپنے والی خواتین کی طرح معاشرے کے ہر طبقے کے لوگ شریک تھے اور ملکی تاریخ میں ایسا کم ہی ہوا ہے۔ ان مظاہروں کی ابتدا حکومت کے ایک تعمیراتی منصوبے کے خلاف ہوئی تھی۔ یہاں پر حکومت عثمانی دور کی ایک ختم کر دی جانے والی فوجی چھاؤنی کو از سر نو تعمیر کرنا چا ہ رہی تھی، جس میں ایک شاپنگ مال بھی تعمیر کیا جانا تھا۔

گایے بورولیوگلو نے گیزی مظاہروں سے متعلق اپنی تمام یادوں کو ادبی انداز دیا ہے۔ ان کی مختصر کہانیوں کی کتاب کا جرمن زبان میں بھی ترجمہ کیا جا چکا ہے۔ تقریباً چار ہفتے بعد ترکی میں انتخابات ہونے والے ہیں۔ مصنفہ گایے بورولیوگلو نے ابھی بھی امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا، ’’گیزی ایک خواب تھا، جس کا تعلق انسانیت سے تھا۔ ہم ایک مرتبہ اس خواب کو دیکھ چکے ہیں تو دوسری مرتبہ کیوں نہیں؟‘‘