ايران کی احتجاجی تحريک اور عرب دنيا کے ہنگامے: ايک موازنہ
14 جولائی 2011کيا ايران اور عرب ممالک ميں، خاص طور پر نوجوانوں کی شرکت سے ہونے والے احتجاج کا ايک دوسرے سے موازنہ کيا جا سکتا ہے؟
اگر پچھلے مہينوں کے دوران عرب دنيا کے بہت سے حصوں ميں برپا ہونے والے ہنگاموں کا موازنہ اُس سے پہلے ايران کے صدارتی انتخابات کے خلاف احتجاج سے کيا جائے، تو ان ميں دو مشترکہ باتيں خاص طور پر سامنے آتی ہيں۔ ايک تو يہ کہ ان دونوں ميں ہزاروں نوجوانوں نے حصہ ليا اور اُنہوں نے اپنی حکومتوں کے بارے ميں اپنے غم و غصے کا اظہار کيا۔ دوسری مشترکہ بات يہ ہے کہ ايران اور عرب ممالک دونوں ميں احتجاج ميں سوشل نيٹ ورکس نے اہم کردار ادا کيا اور احتجاج ميں شدت اور حدت پيدا کی۔
انہی مشترکہ باتوں کی وجہ سے ايران کی اپوزيشن تحريک کا موازنہ عرب ممالک ميں احتجاجات سے کيا جاتا ہے۔ تاہم ايران کے نوجوان اديب فرہاد کا کہنا ہے کہ ان دونوں ميں بنيادی فرق بھی ہيں: ’’ميرے خيال ميں ان احتجاجات کے نکات ايک دوسرے سے مختلف ہيں۔ ايران کے مقابلے ميں عرب ملکوں ميں ہنگاموں ميں بے روزگاری اور حکومتوں سے بے اطمينانی کا دخل زيادہ تھا۔ عرب حکومت تبديل کرنا چاہتے تھے۔ ليکن ايران کے صدارتی انتخابات ميں معاملہ حکومت کے اندر طاقت ميں تبديلی کا تھا۔ ايرانيوں نے انتخابی نتائج کے خلاف احتجاج کيا تھا۔ اس ليے ان دونوں کو ايک دوسرے سے مشابہ نہيں کہا جا سکتا۔‘‘
مزيد يہ کہ تيونس اور مصر ميں سوشل نيٹ ورکس نے آمروں کے زوال کی رفتار کو تيز تر کيا، ليکن ايران ميں نوجوان کوئی سياسی تبديلی يا اقتدار کی تبديلی نہيں لا سکے۔
ايک ايرانی طالبہ کا کہنا ہے کہ ايران ميں معاشی دباؤ اتنا زيادہ ہے کہ سياسی تبديلی پر سوچنا بہت ہی مشکل ہے۔ کھانے پينے کی چيزوں کی قيمتيں آسمان سے باتيں کررہی ہيں۔ انہوں نے يہ بھی کہا کہ ايران ميں نيم فوجی مليشيا نے عرب ممالک کے مقابلے ميں نوجوان مظاہرين پر بہت زيادہ سختی کی اور اس ليے نوجوان اب مظاہرے کرنے سے ڈرتے ہيں۔ اس کے علاوہ جون سے ايران ميں اخلاقی نگرانی کی پوليس نے دوبارہ کام شروع کرديا ہے اور لباس يا سر ڈھانپنے ميں بے احتياطی کرنے والی خواتين پرنہ صرف جرمانے کيے جاتے ہيں بلکہ انہيں قيد کی سزا بھی دی جا سکتی ہے۔
اس کے باوجود بعض حلقوں کا يہ خيال ہے کہ عرب دنيا کے نوجوانوں نے اپنے ہی خطے کے ايرانی نوجوانوں کے احتجاجات سے بھی متاثر ہو کر حکومتوں کے خلاف تحريکيں شروع کيں۔
رپورٹ: بہرامی قاويہ، ڈوئچے ويلے / شہاب احمد صديقی
ادارت: عاطف توقير