امن مذاکرات سے قبل شام میں مزید خونریز حملے، متعدد ہلاکتیں
26 جنوری 2016امریکی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس نے دمشق حکومت کے حوالے سے بتایا ہے کہ یہ تازہ کارروائی حمص میں قائم ایک سکیورٹی چیک پوائنٹ پر چھبیس جنوری بروز منگل کی گئی۔ سرکاری میڈیا نے بتایا کہ یہ پرتشدد حملہ ایک ایسے وقت پر کیا گیا ہے، جب حکومتی فورسز نے جنوب میں واقع اس شہر کے متعدد مقامات پر جنگجوؤں کو پسپا کر دیا ہے۔
حمص کے گورنر طلال بارازی نے مقامی نیوز ایجنسی SANA کو بتایا کہ سب سے پہلے ایک کار بم حملہ کیا گیا، جس کے بعد متعدد خود کش حملے کیے گئے۔ شام اور عراق میں فعال انتہا پسند گروپ داعش نے اس تازہ کارروائی کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ اس شدت پسند گروہ سے وابستہ ’اعماق‘ نیوز ایجنسی نے کہا ہے کہ شامی حکومت کے خلاف اس کارروائی میں جہادی ہی ملوث تھے۔
شام کے سرکاری ٹیلی وژن سے نشر کی گئی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا تھا کہ حملے کے مقام پر شدید نقصان ہوا ہے۔ حمص کے زہرا نامی علاقے میں کئی عمارتیں منہدم ہو گئیں۔ اس علاقے میں شامی صدر بشار الاسد کے ہم عقیدہ علوی فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد رہتے ہیں۔
دوسری طرف غیر سرکاری ادارے سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے کہا ہے کہ منگل کے دن ہوئی اس خونریز کارروائی میں مجموعی طور پر پچیس افراد مارے گئے، جن میں سے پندرہ سکیورٹی اہلکار تھے۔ آبزرویٹری کے مطابق حملہ آوروں نے پہلے گورنر کے خلاف نعرے بازی کرتے ہوئے لوگوں کو جمع کیا اور پھر ایک خودکش دھماکا کر دیا، جس کے بعد ایک کار بم حملہ بھی کیا گیا۔
دریں اثناء جنوبی شام میں حکومتی فورسز نے الشیخ مسکین نامی شہر میں جنگجوؤں کو پسپا کرتے ہوئے وہاں کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ شامی فورسز نے اس علاقے میں جہادیوں کے خلاف گزشتہ برس دسمبر میں کارروائی شروع کی تھی۔ الشیخ مسکین نامی چھوٹا سا شہر عسکری حوالے سے انتہائی اہم تصور کیا جاتا ہے۔ یہی وہ علاقہ ہے، جہاں سے ایک اہم شاہراہ نہ صرف دمشق کو اردن سے ملاتی ہے بلکہ یہ درعا تک بھی جاتی ہے۔
سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق جنوبی علاقوں میں جنگجوؤں کے خلاف کارروائی میں شامی فورسز کو روسی فضائیہ کی مدد بھی حاصل ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ شامی جنگی طیارے بھی زمینی فوج اور دیگر اتحادی ملیشیا گروپوں کو مسلسل تعاون فراہم کر رہے ہیں۔
شامی تنازعے کے نتیجے میں اقوام متحدہ کے مطابق اب تک دو لاکھ ساٹھ ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ عالمی برادری کی کوشش ہے کہ اس بحران کے خاتمے کے لیے پرامن حل تلاش کیا جائے۔ اسی مقصد کے لیے آئندہ جمعے کے دن سے شام کے حوالے سے مذاکرات کا ایک نیا سلسلہ شروع کیا جا رہا ہے۔ تاہم شام کے حوالے سے امن مذاکرات کے لیے شامی اپوزیشن ٹیم کے سربراہ نے کہا ہے کہ وہ جنیوا میں جلد ہونے والے ان مذاکرات کے حوالے سے زیادہ پر امید نہیں ہیں۔
عربی نیوز چینل ’الحدث‘ نے اپوزیشن کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ اسد زعبی کے حوالے سے بتایا ہے کہ حالیہ سفارتی کوششوں سے ’مذاکرات کے دوران امید کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی‘۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ شام کے لیے اقوام متحدہ کے نمائندہ خصوصی اسٹیفان دے مِستورا اپوزیشن ٹیم پر ’شرائط مسلط نہیں کر سکتے‘۔ تاہم شرائط کے حوالے سے مزید کوئی تفصیل نہیں بتائی گئی۔