1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

داعش کے ’طاقت کے مراکز‘ کی تباہی اور شام میں امن کی امید

امتیاز احمد21 جنوری 2016

مغربی رہنماؤں نے داعش کے ’طاقت کے مراکز‘ يا ٹھکانوں کو تباہ کرنے کے لیے اپنی کوششیں تیز تر کرنے کا اعلان کیا ہے جبکہ روس نے عندیہ دیا ہے کہ شامی امن سے متعلق اہم مذاکرات دنوں کے اندر اندر شروع ہو سکتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1HhdQ
Frankreich Verteidigungsministertreffen der Anti-IS Koalition
تصویر: Getty Images/AFP/A. Jocard

فرانس کے دارالحکومت پیرس میں اپنے مرکزی اتحادیوں کے ساتھ اہم اجلاس کے بعد امریکی وزیر دفاع ایشٹن کارٹر نے داعش کو ’کینسر‘ کا نام دیتے ہوئے اس کے خاتمے کے لیے کوششیں تیز تر کرنے کا اعلان کیا ہے۔

امریکی وزیر دفاع کے اسی بیان کے ساتھ ہی روسی وزیر خارجہ سيرگئی لاوروف نے کہا ہے کہ ’’شام امن مذاکرات کا آغاز آئندہ چند روز میں‘‘ ہو سکتا ہے۔ انہوں نے یہ بیان اپنے امریکی ہم منصب جان کیری سے زیورخ میں ملاقات کے بعد دیا ہے۔

سوئٹزر لینڈ کے ورلڈ اکنامک فورم میں شریک ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے بھی معاملے کے سیاسی حل پر زور دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا، ’’اس مسئلے کا کوئی بھی فوجی حل ممکن نہیں ہے‘‘۔ روس اور ایران پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ شامی صدر بشار الاسد کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں جبکہ ماسکو حکومت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ داعش کے خلاف لڑنے والے اپوزیشن عسکری گروپوں کے خلاف اندھا دھند بمباری کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔

امریکی وزیر دفاع نے ایک مرتبہ پھر روس کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا ہے، ’’روسی اسٹریٹیجک طور پر غلط راستے پر ہیں اور بعض واقعات ان کی حکمت عملی بھی غلط ہوتی ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ’’روس کے ساتھ وسیع تر تعاون کے لیے کوئی ایک بھی بنیاد نہیں ہے۔‘‘ دوسری جانب روسی وزیر خارجہ نے اس کے برعکس بیان دیتے ہوئے کہا ہے، ’’روس مزید قریبی تعاون کا خواہش مند ہے تاکہ مشترکہ آپریشن کیے جا سکیں۔‘‘

گزشتہ روز پیرس کے اجلاس میں آسٹریلیا، برطانیہ، فرانس، جرمنی، اٹلی، ہالینڈ اور امریکا کے دفاعی وزراء شامل تھے۔ ایشٹن کارٹر کا کہنا تھا کہ یہ داعش کے خلاف ان کے مرکزی اتحادیوں کا اجلاس تھا جبکہ ان کے چھبیس اتحادی ملکوں کے وزرائے دفاع کا اجلاس فروری میں بیلجیم کے دارالحکومت برسلز میں ہوگا۔ انہوں نے کہا، ’’اس میں ہر ملک کو اس تیاری کے ساتھ شامل ہونا ہوگا کہ اس لڑائی میں کس طرح مزید تعاون کیا جا سکتا ہے۔‘‘

امریکی وزیر دفاع نے کہا ہے کہ وہ داعش کے خلاف سُنی عرب ممالک کی وسیع تر شمولیت کو یقینی بنانا چاہتے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ سُنی عرب ممالک امریکی حمایت یافتہ بغداد کی شیعہ اکثریتی حکومت کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

سُنی عرب ممالک امریکا پر بھی یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ وہ شام میں صدر اسد حکومت کو گرانے کے لیے مضبوط کارروائیاں کرنے سے گریزاں ہے۔ امریکی وزیر دفاع کا کہنا تھا، ’’میں اپنے ہم منصبوں سے اسی بارے میں آئندہ چند روز میں کچھ سننا چاہتا ہوں کہ ہم ان کو کیسے گیم میں شامل کر سکتے ہیں۔ میں بہت پہلے سے یہ کہہ چکا ہوں کہ عربوں اور سنی عربوں کو شامل کرنا بہت ضروری ہے۔‘‘