امریکی مالی بحران کی نئی جہت
18 ستمبر 2008دنیا بھر میں پیدا شدہ مالی بحران کی وجہ سے ماہرین اقتصادیات عالمی مالیاتی نظام میں مخفی خامیوں کی نشاندہی میں مصروف ہو گئے ہیں۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ امریکن انشورنس گروپ کو پچاسی ارب ڈالر کی امداد کے باوجود صورت حال میں بہتری بہت ہی معمُولی دیکھنے میں آئی ہے۔ اِسی تناظر میں کئی اور مالیاتی اداروں میں بھی مالی پیچیدگیاں اور کمزور صورت حال ظاہر ہونا شروع ہو گئی ہیں اور ایسے میں پریشان حال ادارے اپنے اثاثوں کی فروخت یا دوسرے چوٹے مگر مستحکم اداروں کے ساتھ ادغام کی بات چیت میں مصروف ہیں۔ ہلچل کی وجہ سے بڑے بڑے سرمایہ دار پریشان حال ہیں کیونکہ ماہرین کا خیال ہے کہ ابھی تو مالی بحران کی ابتداء ہے اور جب اِس کے عالمی اثرات نمودار ہوں گے تو بہت بھیانک صورت حال سامنے آ سکتی ہے۔
امریکی مالی بحران کی وجہ عالمی سٹاک مارکیٹس میں کھلبلی کی یہ کفیفیت دیکھتے ہوئے ایک برطانوی بینک ایچ بی او سی نے فوراً خود کو بیچ دیا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ یہ عمل جاری رہے گا۔
ایشیائی اقتصادیات میں مختلف ملکوں کی حکومتیں تینتیس ارب ڈالر سٹاک مارکیٹس میں ڈال چکی ہیں مگر ماہرین کا خیال ہے کہ عالمی بحران کو بچانے کے لئے ایک سو اسی ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔ اِسی تناظر میں دنیا کے چھ بڑثے مرکزی بینکوں نے اتنی بڑی رقم جاری کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اِن بینکوں کا تعلق برطانیہ، امریکہ، یورپ، کینیڈا، سوئٹزر لینڈ اور جاپان سے ہے۔ دو اور امریکی مالیاتی اداروں مورگن سٹینلے اور واشنگٹن میوچل بھی مالی مشکلات سے دوچار ہیں۔ ایسی بھی اطلاعات ہیں کہ واشنگٹن میوچل کی فروخت کا عمل جاری ہے۔ عالمی مالیاتی نظام میں پائی جانے والی خامیوں کی عکاس لیہمن برادرز بینک اور Bear Stearns جیسے ناکام بینک ہیں جو کسی وقت انتہائی مستحکم مالیاتی ادارے تھے۔
امریکی فیڈرا ریزرو بینک کی کوششیں اپنی جگہ مگر عالمی منڈیوں میں تیل کی قیمتوں میں کمی کو بھی اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جا رہا۔ روس کی سٹاک مارکیٹ میں دوسرے دِن بھی شدید مندی کے بادل چھائے رہے اور کاروبارکو معطل کردیا گیا۔ روسی حکومت بھی منڈی کو استحکام دینے کے لئے بیس ارب ڈالر دے رہا ہے۔
آزاد مارکیٹ کے مخالفین کا کہنا ہے کہ موجودہ بحران کے تناظر میں یہ بھی کہا جار رہا ہے کہ امریکہ اب آزاد مارکیٹ میں عالمی سرمایہ کاری کا لیڈر نہیں رہا کیونکہ حالیہ امریکی اقدام مارکیٹ اکانومی کے بنیادی تصورات کی نفی کرتا ہے۔ مگر یہ بھی حقیقیت ہے کہ حالیہ امریکی اقدامات ناگزیر تھے۔