1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان حکومت کے سب سے بڑے دشمن کا ’انتقال‘، ایک عہد کا خاتمہ

عاطف توقیر30 جولائی 2015

کابل حکومت نے طالبان کے رہنما ملا عمر کے انتقال کی تصدیق کر دی ہے جبکہ طالبان نے ابھی تک اس معاملے میں خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ بعض حلقے ملا عمر کو، جو اپنے حامیوں کی نظر میں ’امیر المومنین‘ تھے، جنگی مجرم سمجھتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1G6yh
Mullah Mohammed Omar
تصویر: picture alliance/CPA Media

یک چشم ملا عمر سے متعلق زیادہ علم کسی کو نہیں، مگر ملا عمر نے ایک طرف تو افغانستان میں سوویت یونین کی فوجی مداخلت پر ایک طویل جنگ لڑی مگر ساتھ ہی سن 2001ء میں افغانستان میں امریکی قیادت میں اتحادی فوجی مداخلت اور طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد وہ مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے خلاف بھی اپنے حامیوں کی قیادت کرتے ہوئے طویل جنگ لڑتا رہا۔

ایک وقت تھا کہ ملا عمر افغانستان کے تقریباﹰ 90 فیصد حصے پر کنٹرول کا حامل تھا، مگر اس کے متعلق معلومات اب بھی بہت کم دستیاب ہیں۔

اس بارے میں بھی مختلف طرح کی معلومات ہیں کہ ملا عمر اصل میں پیدا کہا ہوا تھا، تاہم طالبان کی جانب سے سامنے آنے والی سوانح عمری میں بتایا گیا تھا کہ وہ 1960ء میں جنوبی صوبے قندھار کے ضلع خاکرز میں پیدا ہوا تھا۔

Taliban Unterstützer
ملاعمر خود کو امیرالمومنین کہلواتا تھاتصویر: BANARAS KHAN/AFP/Getty Images

پانچ برس کی عمر میں والد کے انتقال کے بعد اس کے اہل خانہ اُرزگان صوبے میں منتقل ہو گ، جہاں وہ اپنے دو چچاؤں کی سرپرستی میں بڑا ہوا۔ اُرزگان صوبے ہی کے ایک دینی مدرسے میں اس نے مذہبی تعلیم حاصل کی مگر اپنی عمر کی دوسری دہائی میں تعلیم مکمل کرنے سے قبل ہی سوویت یونین کے افغانستان پر حملے کے بعد وہ جنگ میں مصروف ہو گیا۔

سن 1989ء میں افغانستان سے سوویت فوجوں کے انخلا کے موقع پر جب ’مجاہدین‘ کے لیے امریکی امداد ختم ہو گئی، تو پاکستان افغانستان میں محمد نجیب اللہ کی حکومت کے خلاف ان جہادی عناصر کی مدد کرتا رہا اور اس کا نتیجہ نجیب اللہ حکومت کے خاتمے کی صورت میں نکلا۔

طالبان کی پیدائش:

وہ مجاہدین جو سوویت یونین کے خلاف شانہ بہ شانہ لڑتے رہے سن 1990ء کی دہائی میں ملکی اقتدار کے حصول کی کوشش میں ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار ہو گئے۔ تاہم اس موقع پر جاری لڑائی میں ملا عمر ملوث نہیں تھا۔ سوویت یونین کی حامی حکومت کے خاتمے کے بعد وہ قندھار صوبے کے ایک گاؤں میں ایک دینی مدرسے میں تدریسی سرگرمیوں میں مصروف ہو گیا۔ پھر ملک میں جنگی سرداروں کے درمیان جاری لڑائی سے تنگ آ کر سن 1994ء میں اس نے اپنی مسلح کارروائیوں کا آغاز کیا۔

طالبان کے پروپیگنڈا مواد کے مطابق افغانستان میں جاری خانہ جنگی کے موقع پر ’ایک بوڑھی عورت ملا عمر کے خواب میں آئی اور مدد کی اپیل کی‘، جس پر ملا عمر نے قندھار سے اپنی کارروائیوں کا آغاز کیا جب کہ اس موقع پر اس کے ساتھ اس کے پچاس طلبہ تھے۔ انہوں نے سب سے پہلے جنگی سرداروں کی ان چوکیوں پر حملے کیے، جہاں یہ سردار لوگوں سے ٹیکس وصول کیا کرتے تھے۔ اس سلسلے کا نتیجہ آگے چل کر سن 1996 سے 2001 تک افغانستان کے زیادہ تر حصے پر طالبان کی مکمل حکومت کی صورت میں برآمد ہوا۔ پاکستان کے حمایت یافتہ ملا عمر نے سن 1996 میں کابل پر قبضہ کر لیا اور خود کو ’امیر المومنین‘ کہلوانا شروع کر دیا۔

Afghanistan Taliban
طالبان نے افغانستان پر امریکی حملے کے بعد سے مسلح مزاحمت شروع کر رکھی ہےتصویر: AP

افغانستان پر ملا عمر کی حکومت

1998ء میں افغانستان کے 90 فیصد حصے پر قبضے کے بعد طالبان کی طرف سے وہاں اسلام کی خودساختہ تشریحات پر مبنی سخت ترین شرعی قوانین کا نفاذ کر دیا گیا۔

ملا عمر کی حکومت پر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور شمالی افغانستان میں قتل عام کے الزامات لگتے رہے۔ خواتین اور لڑکیوں کو ان بنیادی انسانی حقوق سے محروم کر دیا گیا، جن میں تعلیم اور مرضی سے شادی کے حقوق بھی شامل تھے۔ یہ ملا عمر ہی کی حکومت تھی، جس دوران افغانستان دہشت گرد تنظیم القاعدہ کے ایک مضبوط ٹھکانے میں تبدیل ہو گیا تھا۔

القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کے متعلق بھی کہا جاتا رہا تھا کہ وہ قندھار میں رہ رہا ہے اور اسی سے ان دونوں کے درمیان مضبوط تعلقات کا بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

ملا عمر کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ عربی زبان بول سکتا تھا اور عربی کی تربیت اس نے مذہبی مدرسے میں تعلیم کے دوران حاصل کی تھی۔ ایسے بہت کم افراد ہیں، جو ملا عمر سے مل سکے، مگر ایسے افراد کا کہنا تھا کہ ملا عمر ایک عام سا شخص تھا، جو دیگر مولویوں کی مشاورت سے اپنے امور چلاتا تھا، جب کہ اس کے پاکستان کے ساتھ مضبوط تعلقات تھے۔

دہشت گرد تنظیم القاعدہ اور اس کے سربراہ اسامہ بن لادن کا ملا عمر کے ساتھ مضبوط رابطہ اس دہشت گرد گروہ کی جانب سے طالبان کو مالی فوائد اور بدلے میں اسے مضبوط پناہ گاہیں مہیا کرنے کے لیے ضروری تھا۔

اسامہ بن لادن کی جانب سے گیارہ ستمبر دو ہزار ایک کے حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے کے بعد امریکا کی جانب سے ملا عمر سے کہا گیا کہ وہ اس دہشت گرد گروہ کے رہنما کو اس کے حوالے کر دے، تاہم یہ مطالبہ طالبان حکومت کی جانب سے مسترد کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد امریکا نے افغانستان پر چڑھائی کر دی اور ایک نئی اور طویل جنگ کا آغاز ہو گیا۔

2001ء کے بعد کی زندگی

امریکی فوجی مداخلت کے بعد ملا عمر افغانستان سے فرار ہو کر پاکستانی قبائلی علاقوں میں جا چھپا اور اس کے حامیوں نے نیٹو اور افغان سکیورٹی فورسز کے خلاف گوریلا جنگ شروع کر دی۔

اس نے دیگر عسکری گروہوں کو ساتھ ملا کر کوئٹہ کونسل کی بنیاد رکھی۔ ان گروہوں میں حقانی نیٹ ورک اور تحریک طالبان پاکستان بھی شامل تھے۔

ملا عمر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے مبینہ طور پر پاکستانی خفیہ ادارے آئی ایس آئی کی بھرپور اعانت بھی دستیاب رہی، جو طالبان کو افغانستان میں بھارتی اثر و رسوخ کے خلاف پراکسی جنگ کے لیے استعمال کرتا ہے۔ پاکستان کی جانب سے ان الزامات کا ہمیشہ انکار کیا جاتا رہا ہے۔

سن 2001ء کے بعد ملا عمر کے دستوں نے اپنی جنگی حکمتِ عملی کو تبدیل کیا اور زیادہ تر خود کش حملے اور سڑک کنارے بارودی سرنگیں بچھا کر حملے کیے، جس میں صرف امریکی، غیرملکی اور افغان فوجی ہی نہیں بلکہ بڑی تعداد میں عام افغان شہری بھی مارے گئے۔

افغان حکومت کی جانب سے ملا عمر سے کہا گیا کہ وہ ملکی انتخابات میں حصہ لے اور حکومت میں شامل ہو، تاہم اس نے ہمیشہ ان حکومتی اپیلوں کو مسترد کر دیا تھا۔ اس کا موقف یہ تھا کہ وہ افغانستان سے غیرملکی افواج کے مکمل انخلا تک اپنی مسلح جدوجہد جاری رکھے گا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید