ملا عمر کا انتقال اپریل 2013ء میں ہوا، کابل حکومت کی تصدیق
29 جولائی 2015نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق اس طرح افغان حکومت نے یہ کہا ہے کہ ملا عمر کا دو سال سے بھی زیادہ عرصہ پہلے انتقال ہو چکا ہے۔ یہ اعلان کابل حکومت اور افغان طالبان کے درمیان مجوزہ امن مذاکرات کا دوسرا دور شروع ہونے سے ممکنہ طور پر ایک یا دو روز قبل سامنے آیا ہے۔
روئٹرز کے مطابق طالبان کی صفیں پہلے ہی اس سوال پر منقسم ہیں کہ آیا کابل حکومت کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں۔ ایسے میں ایک آنکھ سے نابینا ملا عمر کی رحلت کی خبروں سے طالبان کی صفوں میں انتشار کی کیفیت شدید تر ہو جائے گی۔ طالبان کے مختلف دھڑوں کے سامنے اب یہ سوال بھی ہو گا کہ کس شخصیت کو ملا عمر کا جانشین مقرر کیا جائے۔
2001ء میں طالبان کو افغانستان میں اقتدار سے محروم کیا گیا تھا اور تب ملا عمر قید سے فرار ہو گئے تھے۔ تب سے اب تک وہ پھر کبھی بھی منظرِ عام پر نہیں آئے، جس سے بار بار ایسی قیاس آرائیاں جنم لیتی رہی ہیں کہ یا تو جسمانی طور پر معذور ہو چکے ہیں یا پھر انتقال کر چکے ہیں۔
افغان صدارتی محل کے مختصر بیان میں کہا گیا ہے:’’حکومت معتبر معلومات کی بنیاد پر اس امر کی تصدیق کرتی ہے کہ طالبان کا لیڈر ملا محمد عمر اپریل 2013ء میں پاکستان میں انتقال کر گیا تھا۔‘‘ اس بیان میں ’معتبر معلومات‘ کی کوئی وضاحت نہیں کی گئی ہے۔
اس بیان میں حکومت اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کے حوالے سے کہا گیا ہے:’’افغانستان کی حکومت کے خیال میں افغان امن مذاکرات کی راہ اب پہلے سے بھی زیادہ ہموار ہو چکی ہے۔ ایسے میں حکومت تمام مسلح گروپوں پر زور دیتی ہے کہ وہ اس موقعے سے فائدہ اٹھائیں اور امن عمل میں شامل ہو جائیں۔‘‘
ابھی تک ملا عمر کے انتقال کے بارے میں طالبان نے کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے۔ روئٹرز کے مطابق افغان طالبان کے باقاعدہ ترجمان سے رابطے کی کوشش کی گئی، جو ناکام رہی۔
ملا عمر کے انتقال کی یہ خبر ایک ایسے مرحلے پر سامنے آئی ہے، جب افغان حکومت اور طالبان کے درمیان جمعرات یا جمعے کو ایک تاحال نامعلوم مقام پر امن مذاکرات کا دوسرا دور منعقد ہونے والا ہے۔
طالبان کو افغانستان میں مختلف علاقوں پر قبضہ کرنے کے سلسلے میں حال ہی میں کافی کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں اور افغان صدر اشرف غنی اس امر کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں کہ طالبان کے ساتھ کوئی امن سمجھوتہ طے کر سکیں۔
روئٹرز کے مطابق ہمسایہ ملک پاکستان میں مقیم ایک سینیئر افغان طالبان کمانڈر نے بتایا کہ ملا عمر کی موت ’طبعی‘ تھی لیکن اُس نے یہ نہیں بتایا کہ یہ موت کب واقع ہوئی۔ اس عسکریت پسند کے مطابق ملا عمر کی جانشینی کے مسئلے کو حل کرنے میں ابھی کچھ وقت لگے گا۔ ایک دھڑا ملا عمر ہی کے ایک بیٹے کو طالبان کا نیا قائد مقرر کرنے کے حق میں ہے۔ دوسرا دھڑا سیاسی رہنما اختر محمد منصور کا حامی ہے، جو امن مذاکرات کے حامیوں میں شامل ہیں۔