1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستنیدر لینڈز

اسرائیل کو جنگی طیاروں کے پرزے فراہم نہ کیے جائیں، ڈچ عدالت

12 فروری 2024

ایک ڈچ عدالت نے ملکی حکومت کو اسرائیل کو ایف 35 جنگی طیاروں کے پرزے فراہم کرنے سے روک دیا ہے۔ عدالت نے یہ فیصلہ انسانی حقوق کی تنظمیوں کی دائر کردہ ایک اپیل پر سنایا۔

https://p.dw.com/p/4cK1Q
Kampfflugzeug F-35
تصویر: Boris Roessler/dpa/picture alliance

ڈچ عدالت نے انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے دی گئی درخواست کی سماعت کرتے ہوئےحکومت کو ہدایت کی کہ غزہ پٹی میں اسرائیل کے زیر استعمال جنگی طیاروں کے فاضل پرزے اسرائیل کو مہیا نہ کیے جائیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا موقف ہے کہ اسرائیل کو ایف 35 جنگی طیاروں کے پرزوں کی فراہمی غزہ میں اسرائیل کی جانب سے بین الاقوامی قوانین کی مبینہ خلاف ورزیوں کے زمرے میں آتی ہے۔

عدالت نے ڈچ ریاست کو حکم دیا ہے، "ریاست سات دن کے اندر اندر اسرائیل کو کی جانے والی فاضل پرزوں کی ترسیل روک دے۔" امریکی ایف 35 جنگی طیاروں کے پرزے نیدرلینڈز میں واقع ایک گودام سے اسرائیل سمیت دیگر ممالک کو برآمد کیے جاتے ہیں۔  

انسانی حقوق کی تنظیموں کا ماننا ہے کہ اسرائیل کو نیدرلینڈز کے ویئر ہاؤس سے پرزوں کی فراہمی کے نتیجے میں، ''نیدرلینڈز غزہ میں جاری جنگ کے دوران انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا حصہ بن رہا ہے۔‘‘

Niederlande Gericht verbietet Export von F-35-Teilen nach Israel
''نیدرلینڈز غزہ میں جاری جنگ کے دوران انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا حصہ بن رہا ہے۔‘‘تصویر: Lex van Lieshout/ANP/picture alliance

گزشتہ سال دسمبر میں دی ہیگ کی ایک عدالت نے کہا تھا کہ ایف 35 طیاروں کے پرزوں کی اسرائیل کو فراہمی ایک سیاسی فیصلہ ہے، جس میں ججوں کو مداخلت نہیں کرنا چاہیے۔ سرکاری وکلاء کی جانب سے عدالت میں دلیل دی گئی تھی کہ نیدرلینڈز میں واقع گوداموں سے پرزے فراہم نہ کرنے پر اسرائیل ان پرزوں کو دوسرے ممالک سے حاصل کر سکتا ہے۔

ڈچ حکومت کی جانب سے ملکی عدالت کے آج کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کر دی گئی ہے۔ نیدرلینڈز کے وزیر تجارت جیفری وان لیووین نے کہا، ''ایف 35 طیاروں کے پرزوں کی اسرائیل کو فراہمی بلاجواز نہیں ہے۔ یہ جنگی طیارے اسرائیل کی سلامتی اور عسکری صلاحیتوں کو بڑھانے کے لیے انتہائی ضروری ہیں تاکہ وہ خطے میں دریش خطرات کا بہتر طور پر مقابلہ کر سکے۔ مثال کے طور پر ایران، یمن اور شام جیسے ممالک سے خطرات‘‘۔ وان لیووین کے مطابق ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ اس فیصلے کے کیا نتائج برآمد ہوتے ہیں۔

غزہ میں جاری جنگ گزشتہ سال 7 اکتوبر کو فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس کی جانب سے اسرائیل میں دہشت گردانہ حملوں کے ردعمل میں شروع ہوئی تھی۔ حماس کے ان حملوں میں تقریباً 1,160 افراد ہلاک ہوئے تھے، جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔

اسرائیلی حکام کی جانب سے دیے گئے اعداد و شمار پر مبنی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کی ایک رپورٹ کے مطابق حماس کے عسکریت پسند تقریباً 250 افراد کو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ بھی لے گئے تھے۔ غزہ میں حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حملوں میں پیر بارہ فروری تک کم از کم 28,340  فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے تھے۔ دی ہیگ میں واقع بین الاقوامی عدالت انصاف نے حال ہی میں کہا تھا  کہ اسرائیل کو غزہ میں 'نسل کشی کی کارروائیوں‘ کو روکنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کرنا چاہییں۔

ايرانی حمايت يافتہ جنگجو تنظيمیں اور ملیشیا گروپ

م ق /ع ا / م م (ڈی پی اے، اے ایف پی)