1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: کریم ٹیکسی کی خواتین ڈرائیورز

صائمہ حیدر
7 دسمبر 2016

پاکستان میں کریم ٹیکسی سروس نے خواتین ٹیکسی ڈرائیورز کو متعارف کروایا ہے۔ قدامت پرست پاکستانی معاشرے میں یہ ایک انوکھی مثال ہے جہاں خواتین مجموعی افرادی قوت کا محض بائیس فیصد حصہ ہیں۔

https://p.dw.com/p/2TtGT
Pakistan Taxi-Unternehmen Careem - Frauen als Fahrerinnen
کراچی کی آسیہ عبدالعزیز کا کہنا ہے کہ خواتین کے لیے محفوظ ٹیکسی کی فراہمی اہم ہےتصویر: Reuters/A. Soomro

کریم ٹیکسی سروس کے اپنے حریف ادارے اوبر ٹیکسی کی نسبت مشرقِ وسطی ، شمالی افریقہ اور پاکستان میں زیادہ بڑے مارکیٹ شیئرز ہیں۔ اب یہ ایک نئے آئیڈیے کے ساتھ میدان میں آئی ہے جس کے مطابق خواتین ٹیکسی ڈرائیورز کو متعارف کرایا جائے گا جو مرد اور خواتین دونوں طرح کے گاہگوں کو خدمات مہیا کر یں گی۔

 فی الحال یہ سروس پاکستان کے بڑے شہروں لاہور، کراچی اور اسلام آباد میں مہیا کی جارہی ہے۔ پاکستان میں ’کریم‘ کے جنرل مینیجر احمد عثمان نے خبر رساں ادارے روئٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’ہم خواتین کو اپنی آمدنی میں اضافےکے وہی مواقع دینا چاہتے ہیں جو یہاں مردوں کو حاصل ہیں۔‘‘ عثمان نے بتایا کہ اب تک سات خواتین ڈرائیورز عملے میں شامل ہو چکی ہیں لیکن  ملازمت کے لیے درخواستیں ابھی لی جا رہی ہیں اور ُان کو امید ہے کہ مزید خواتین اپنی دلچسپی ظاہر کریں گی۔‘‘

 تیس سالہ زہرا علی نے ایک دوست سے ’کریم‘ کے بارے میں سنا تھا اور اُنہیں لگا کہ یہ روزگار کمانے کا ایک با عزت ذریعہ ہو سکتا ہے۔ زہرہ علی کے شوہر کا دو سال قبل انتقال ہو گیا تھا اور تب سے وہ اپنے دو بچوں کی اکیلے ہی کفالت کر رہی ہیں۔

Pakistan Taxi-Unternehmen Careem - Frauen als Fahrerinnen
اب تک سات خواتین ڈرائیورز عملے میں شامل ہو چکی ہیںتصویر: Reuters/A. Soomro

علی کے پاس بس اِتنے ہی پیسے تھے کہ وہ ایک کار خرید سکیں اور ڈرائیونگ لائسنس بنا سکیں۔ زہرا علی نے جب چند ماہ پہلے ’کریم‘ میں نوکری کے لیے درخواست دی تو اُسے بتایا گیا کہ وہاں خواتین کے لیے کوئی اسامی نہیں ہے تاہم جلد ہی اُنہیں فون کر کے نوکری کی خوشخبری سنا دی گئی۔

زہرا علی نے خبر رساں ادارے روئٹرز سے لاہور میں اپنی رہائش گاہ پر بات کرتے ہوئے کہا، ’’واحد کام جو میں جانتی تھی وہ ڈرائیونگ ہے۔ اب میں اپنے بچوں کو اچھی تعلیم اور زندگی فراہم کر سکوں گی۔‘‘

عثمان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے جنوبی شہر کراچی میں خواتین کسٹمرز کی طرف سے خصوصی طور پر محفوظ ٹیکسیوں کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ چھیالیس سالہ خاتون ڈرائیور آسیہ عبدالعزیز سے جب پوچھا گیا کہ اُنہوں نے ملازمت کے لیے ’کریم‘ کا انتخاب کیوں کیا تو اُن کا کہنا تھا، ’’ کراچی جیسے شہر میں جہاں کوئی کام بھی بغیر سکیورٹی کے کرنا ممکن نہیں، جب ایک ادارہ محفوظ ٹیکسی فراہم کرے تو قدرتی طور پر یہ خواتین کے لیے اہم ہے۔‘‘