راولا کوٹ: تشدد کی شکار خواتین کے لیے منفرد امدادی بازار
27 نومبر 2016پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں اہم شہر راولا کوٹ کے قریب ایک چھوٹے سے گاؤں میں واقع اِس مارکیٹ کے قیام کا مقصد خواتین کو اقتصادی طور پر مضبوط بنانا اور اُن کے مالی مسائل کا حل تلاش کرنا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسے چلانے والی بھی خواتین ہی ہیں۔
اِس بازار میں خواتین سلائی میں استعمال ہونے والی چیزوں کی خرید و فروخت کر سکتی ہیں، ریڈی میڈ کپڑوں کی دکانوں پر جا سکتی ہیں اور یہی نہیں بلکہ یہاں وہ بیوٹیشن کی تربیت بھی حاصل کر سکتی ہیں۔ راولا کوٹ کے قریب خواتین کی تیرہ دکانوں پر مشتمل یہ چھوٹی سی مارکیٹ اُن خواتین کو پلیٹ فارم مہیا کر رہی ہے جو اِس قدامت پسند مسلمان علاقے میں خود پر عائد پابندیوں کے خلاف جد و جہد میں مصروف ہیں۔
سماجی کارکن نصرت یوسف ایک غیر سرکاری تنظیم کی سربراہ ہیں اور اپنی این جی او کے ذریعے گھریلو تشدد کی شکار خواتین کے لیے سر گرمِ عمل ہیں۔ نصرت یوسف نے سن 2011 میں ایک مقامی مخیر زمیندار کی مدد سے خواتین کے بازار کے منصوبے کے لیے زمین حاصل کی۔
علاقے کی خواتین کو اُن کے خاندانوں کی جانب سے شہروں او ر قصبوں کی اہم مارکیٹوں میں کام کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ ایک اڑتالیس سالہ بیوہ خاتون نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’ یہاں خواتین ملازمت نہ ہونے اور تمام زندگی گھر میں بیٹھ کر گزارنے کے باعث مایوسی کا شکار ہیں۔ ‘‘
شروع میں مرد حضرات کے لیے مارکیٹ آنا ممنوع تھا۔ تاہم اب مردوں کو بازار میں داخلے کی اجازت دے دی گئی ہے لیکن صرف اُس صورت میں جب وہ خواتین کے ہمراہ ہوں۔ خواتین کی مدد کے لیے قائم کی گئی اِس مارکیٹ نے علاقے میں روایتی قدامت پسند عقائد کی موجودگی کے باوجود عورت کو معاشی طور پر مضبوط بنانے کا راستہ فراہم کیا ہے۔
نصرت یوسف اِس بازار کو ایک ایسی جگہ قرار دیتی ہیں جہاں ، ’’ خواتین بچوں کی پیدائش سے لے کر گھریلو مسائل اور باورچی خانے تک تمام اہم معاملات پر آزادانہ بات کرتی ہیں اور ہم اُنہیں مسائل کا حل بتاتے ہیں۔ ‘‘ دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ یہاں یہ بھی طے کیا جاتا ہے کہ مطلقہ اور گھریلو تشدد کا شکار خواتین کو عدالتوں میں اپنے مقدمات لڑنے میں مدد کیسے فراہم کی جائے۔ خیال رہے کہ پاکستان میں انسانی حقوق کی تنظیمیں اور سیاستدان ایک عرصے سے خواتین پر تشدد کرنے والے افراد کے خلاف سخت قوانین بنانے کا مطالبہ کرتے آئے ہیں۔
مارکیٹ میں ایک خریدار عائشہ بی بی کا کہنا تھا، ’’ اِس بازار نے زندگی کو آسان بنا دیا ہے۔ ماضی میں ہمیں خریداری کے لیے بڑے بازاروں میں جانا پڑتا تھا اور اِس کے لیے خاندان کے کسی مرد رکن کا ساتھ ہونا ضروری ہوتا تھا۔ ‘‘
راولا کوٹ کے قریب یہ چھوٹا سا بازار سارہ رشید جیسی لڑکیوں کو معاشی مدد کے مواقع بھی فراہم کر رہا ہے جسے اپنے والدین کی جانب سے ایسی جگہوں پر ملازمت کی اجازت نہیں تھی جہاں مردوں کی اکثریت کام کرتی ہو۔ تب سارہ نے اپنے والدین سے اِس بازار میں ایک بیوٹی پارلر اور کپڑوں کی دکان کھولنے کی اجازت لے لی۔ سارہ نے فخریہ لہجے میں کہا، ’’ میں اب اچھا کما رہی ہوں اور اپنے گھر والوں اور مستقبل کے لیے بچت بھی کر رہی ہوں۔‘‘