بعض جانوروں میں ہم جنس پرستی کا رجحان پایا جاتا ہے
3 اگست 2017تحقيق سے معلوم ہوا ہے کہ تقریباً ڈیڑھ ہزار جانوروں، کیڑوں اور مچھلیوں کی ایسی اقسام ہیں جنہیں ہم جنس پرستی کے زمرے میں لایا جا سکتا ہے کیونکہ یہ ایک دوسرے کے ساتھ جنسی میل ملاپ رکھتے ہیں۔ ان میں زیادہ تر نر ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ جفتی کرتے ہیں۔ ہالینڈ کے شہر ایمسٹرڈیم کے چڑیا گھر سے منسلک ماہرِ حیاتیات جیسپر بُوئکس کا کہنا ہے کہ جانوروں کی دنیا میں نر اور مادہ کے درمیان جنسی عوامل تو عام ہيں لیکن ہم جنسی پرستی بھی پائی جاتی ہے۔
تائیوانی قانون سے چین کے ہم جنس پرستوں میں شادمانی
’ہم جنس پرستوں پر دورانِ قید تشدد، یہ الزامات بے بنیاد ہیں‘
ہم جنس پرستوں کی شادی، چینی معاشرہ بھی متاثر ہو سکتا ہے
دونوں ہم جنس پرستوں کو بیت مارے جائیں، عدالتی حکم
ماہرین کا خیال ہے کہ جانوروں میں دو نر جانوروں میں ایسے جنسی ملاپ کی کئی ممکنہ وجوہات ہو سکتی ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ مادہ کی فوری عدم دستیابی ہے۔ لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ نر جانور جبلتی تسکین اور مسرت کے لیے ایسی جنسی سرگرمی میں ملوث ہوتے ہیں۔ بسا اوقات سیکس کی شدید طلب کی وجہ سے اُن میں لڑائی بھی ہوتی ہے۔
ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ جبلتی تسکین یا اشتہائی دباؤ کے تحت لڑنے جھگڑنے والے نر جانور بنیادی طور پر ہم جنس پرست نہیں قرار دیے جا سکتے، لیکن وہ نر کی عدم موجودگی میں تولیدی دباؤ میں اپنے کسی نر ساتھی کو بھی نہیں چھوڑتے۔ ماہرین نے یہ بھی بتایا ہے کہ کئی نر جانوروں میں طویل عرصے تک ہم جنسیت کا رویہ پایا گیا ہے اور انہیں باقاعدہ طور پر ہم جنس پرست قرار دیا جا سکتا ہے۔
ایمسٹرڈيم کے چڑیاگھر میں بڑے جثے والی گدھ کی نسل گریفون ولچر کے دو نر برسوں سے ایک ہی پنجرے میں رہتے ہیں اور انہیں ’لَو برڈ‘ قرار دیا جاتا ہے۔ کئی سالوں سے اس گریفون وولچرز جوڑے کے درمیان جنسی روابط قائم ہیں۔ ان کے اس رویے کی حیوانیات کے ماہرین کے پاس کوئی ٹھوس وجوہات بھی نہیں ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ گریفون ولچر ’مونوگیمس‘ یعنی نر اور مادہ کے جنسی تعلقات کا حامل جانور ہے۔
اسی طرح نیو یارک کے چڑیا گھر میں چینی نسل کے دو نر پینگوئن بھی چھ برس سے ہم جنس پرست بتائے گئے ہیں۔ ولندیزی ریسرچر جیسپر بُوئکس نے اس تناظر میں یہ بھی کہا کہ جانوروں میں ہم جنس پرستی ایک مشکل اور پیچیدہ معاملہ ہے کیونکہ مؤثر ڈیٹا کی کمی ہے۔ بُوئکس کے مطابق بہت کم ماہرینِ حیوانات اس معاملے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ وہ اس کم ڈیٹا اور سائنسی وجوہات کے باوجود جانوروں میں ہم جنسی پرستی کے رویے کی موجودگی کو تسلیم کرتے ہیں۔