جنگ کے باعث بیوگی کے بعد فوج، حکام کے ہاتھوں جنسی استحصال
15 فروری 2017سری لنکا کے دارالحکومت کولمبو سے بدھ پندرہ فروری کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق جنوبی ایشیا کی اس جزیرہ ریاست میں تامل علیحدگی پسندی کے مسئلے کی وجہ سے عشروں تک جاری رہنے والی خانہ جنگی کے بعد ملکی حکومت نے قومی اتحاد اور مصالحت کا جو مرکزی دفتر قائم کر رکھا ہے، اس کی سربراہ سری لنکا کی سابق خاتون صدر چندریکا کماراٹنگا ہیں۔
پاکستان سری لنکا کے ساتھ قریبی فوجی تعلقات کا خواہشمند
کولمبو ميں سيلاب، پانچ لاکھ شہری بے گھر
چندریکا کماراٹنگا نے آج کولمبو میں غیر ملکی صحافیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تامل نسل کی وہ سری لنکن خواتین، جو خانہ جنگی کے دوران بیوہ ہو گئی تھیں، انہیں اب نہ صرف مقامی اہلکاروں کی وجہ سے جنسی زیادتیوں کا سامنا ہے بلکہ ان کے اس استحصال میں ملکی فوج کے اہلکار بھی شامل ہیں۔
سابق ملکی صدر کماراٹنگا نے کہا، ’’وہ ہزارہا تامل خواتین جو 37 سالہ مسلح تنازعے کے دوران یا اس کے اختتامی سالوں میں بیوہ ہو گئی تھیں، وہ جب مقامی دفتروں میں اپنے معمول کے سرکاری کام کروانے جاتی ہیں، تو حکام ان سے اکثر معاوضے کے طور پر جنسی تعلقات کا مطالبہ کرتے ہیں۔‘‘
سری لنکا کے قومی وحدت اور مصالحت کے ملکی دفتر کی خاتون سربراہ نے غیر ملکی نامہ نگاروں کو بتایا، ’’تامل علاقوں میں ابھی تک حکام کی طرف سے ان مجبور خواتین کا جنسی استحصال کیا جا رہا ہے، خود تامل حکام کی طرف سے بھی اور دیہات میں بہت نچلی سطح کے اہلکاروں کی طرف سے بھی۔‘‘
چندریکا کماراٹنگا نے کہا، ’’کسی ایک چھوٹے سے سرکاری کاغذ پر دستخط کروانے کے لیے بھی ان بیوہ خواتین کا جنسی استحصال کیا جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ ایسے افراد میں ملکی فوج کے اہلکار بھی شامل ہیں، جو ایسی جنسی زیادتیوں کے مرتکب ہوتے ہیں۔‘‘
کماراٹنگا کے بارے میں یہ بات بھی اہم ہے کہ جب وہ سری لنکا کی صدر تھیں، تو تامل مسلح تنازعے کے نقطہ عروج پر تامل ٹائیگرز کی طرف سے کیے جانے والے ایک خود کش بم حملے میں ان کی اپنی بھی ایک آنکھ ضائع ہو گئی تھی۔
اس تناظر میں ملک کی سابق خاتون صدر نے کہا، ’خواتین کو ایسے مظالم سے بچانے اور ان کے ایسی زیادتیوں کا شکار ہونے کے امکانات کو کم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ان کی معاشی حالت بہتر بنائی جائے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ جب خواتین اپنی آمدنی کے ذرائع کی خود ذمے دار ہوں تو ان میں اپنی طاقت کا ایک ایسا جذبہ جنم لیتا ہے، جو انہیں تحفظ کا احساس دلاتا ہے اور یوں ان کا جنسی یا کسی بھی دوسری طرح کا استحصال کیے جانے کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔
چندریکا کماراٹنگا نے مزید کہا کہ جنسی استحصال کا شکار ہونے والی ایسی تامل بیوہ خواتین اس وقت بڑے ذہنی دھچکے کی کیفیت میں ہیں اور انہیں نفسیاتی رہنمائی کی ضرورت ہے تاہم مقامی سطح پر ایسے نفسیاتی ماہرین کی بھی بہت کمی ہے، جو ایسی مظلوم خواتین کی مدد کر سکیں۔