1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’’پاکستان کو کچھ وقت دیا جائے‘‘ روتھ فاؤ کی خواہش

10 اگست 2017

مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد ڈاکٹر روتھ فاؤ کی وفات پر انہیں خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں۔ اس موقع پر روتھ فاؤ فاؤنڈیشن کے قائم مقام مینیجنگ ڈائرکٹر ہارالڈ مائیر پورسکی کے ساتھ کشور مصطفیٰ کی خصوصی گفتگو۔

https://p.dw.com/p/2i1vl
Dr. Ruth Pfau, Lepra-Ärztin
روتھ فاؤ فاؤنڈیشن کے قائم مقام مینیجنگ ڈائرکٹر ہارالڈ مائیر پورسکی اور ڈاکٹر روتھ فاؤ کی یادگار تصویرتصویر: DAHW/H.Meyer-Porzky

پاکستان میں ایک طویل عرصے سے کوڑھ کے مریضوں کا علاج کرنے والی ڈاکٹر روتھ کیتھرینا مارتھا فاؤ نو ستمبر 1929ء کو جرمنی کے شہر لائپزگ میں پیدا ہوئیں۔ ڈاکٹر روتھ فاؤ نے 1960ء میں پاکستان آکرمیکسیکو سے تعلق رکھنے والی سسٹر بیرنس کے ساتھ کوڑھ یعنی جذام کے مرض کے خاتمہ کے لیے کوششیں شروع کیں اور اپنی ساری زندگی پاکستان میں ہی گزار دی۔ ڈاکٹر روتھ فاؤ اور ان کی فاؤنڈیشن کے بارے میں روتھ فاؤ فاؤنڈیشن کے قائم مقام مینیجنگ ڈائرکٹر ہارالڈ مائیر پورسکی کے ساتھ ڈی ڈبلیو شعبہ اردو کی شربراہ کشور مصطفیٰ کی گفتگو۔

’پاکستانی مدر ٹریسا‘ ڈاکٹر رُوتھ فاؤ انتقال کر گئیں

’پاکستان کی مدر ٹریسا‘

جرمن میڈیا پرائز پاکستان کی ’خاموش ہیرو‘ کے نام

سوال: کوڑھ کے مریضوں کا علاج کرنے والی جرمن ڈاکٹر روتھ فاؤ کا انتقال پاکستان میں جذام کے مریضوں کے لیے کتنا بڑا نقصان ہے؟

جواب: ڈاکٹر روتھ فاؤ کے جانے سے جو نقصان پہنچا ہے، اُس کا ازالہ ممکن نہیں۔ وہ محض جذام کا علاج کرنے والی ڈاکٹر نہیں تھیں بلکہ وہ ایک مضبوط کردار کی حامل ایسی شخصیت تھی جس نے مذہب اور عقیدے سے بالاتر ہو کر انسانوں کی خدمت کی۔ وہ ہر طرح کے انسانوں سے ملتی تھیں، اُن کے قریب جاتی تھیں، ہر اُس شخص کی مدد کرتی تھیں جو اُن سے رجوع کرتا تھا۔ ایسے انسان کا متبادل بہت مشکل سے پیدا ہو سکے گا۔ دوسری جانب انہوں نے میری ایڈیلیڈ لپرسی سینٹر میں ماہرین اور رضاکاروں کی ایک ایسی ٹیم چھوڑی ہے جو ان کی خدمات کو نہایت لگن سے آگے بڑھاتی رہے گی۔

کوڑھیوں کی مسیحا جرمن ڈاکٹر رُوتھ فاؤ کے انتقال پر خصوصی ویڈیو

سوال: آپ نے ڈاکٹر روتھ فاؤ کے ساتھ دو بار کراچی میں وقت گزارا۔ یہ بتائیے کہ ایک جرمن خاتون ہوتے ہوئے انہوں نے پاکستان میں اپنی زندگی کو کیسے منظم کیا؟

جواب: روتھ فاؤ گرچہ ایک نن تھیں تاہم انہوں نے کبھی ایسا لباس نہیں پہنا جس سے یہ ظاہر ہو لیکن انہوں نے ننوں والی بہت ہی سادہ زندگی اختیار کی۔

میری ایڈیلیڈ سینٹر میں ایک چھوٹے سے کمرے میں انہوں نے تمام عمر بتا دی۔ بغیر کسی تعیش کے۔

 

صبح سویرے سے رات گئے تک وہ صرف اور صرف جذام کے مریضوں کے لیے کام کیا کرتی تھیں۔ متعدد بار میرا اُن کے ساتھ کراچی کے نہایت غریب علاقوں میں جانا ہوا۔

وہاں کے رہائشی روتھ فاؤ کو بہت اچھی طرح پہچانتے تھے۔ لوگ اُن کے پاس بھاگے آتے تھے، انہیں چھونا چاہتے تھے، اُن سے باتیں کرنا چاہتے تھے۔ کئی بار نہایت جذباتی سین بھی دیکھنے کو ملے۔ انہیں جذام کے مریضوں کی ماں کہا جاتا ہے اور یہ چیز اکثر دیکھنے کو ملی کہ غریب، بیمار، کوڑھ کے مریض ان کی طرف ایسے ہی والہانہ بڑھتے تھے جیسے کوئی اپنی ماں کی طرف بڑھتا ہے۔

سوال: ایک تعلیم یافتہ جرمن خاتون کے اس طرح پاکستان جانے کی وجہ کون سے محرکات بنے؟

جواب: ڈاکٹر روتھ فاؤ دراصل بحیثیت نن بھارت کے لیے روانہ ہوئی تھیں۔ ویزا کے کچھ مسائل تھے جن کے سبب انہیں کراچی میں طویل عرصے کے لیے رکنا پڑا۔ وہاں ان کا گزر ایک کچی آبادی سے ہوا۔ وہاں کوڑھ کے مریض رہتے تھے وہ جذام کے مریضوں کی کالونی تھی اور یہ مریض اُس وقت ناگفتہ بہ صورتحال میں زندگی بسر کر رہے تھے۔

یہ واقعہ ہے انیس سو ساٹھ  کی دہائی کا۔ تب پاکستان میں سرکاری طور پر جذام کے مریضوں کا کوئی شمار ہی نہیں تھا۔ وہ اپنے وجود کی بقا کی جدو جہد کر رہے تھے۔ اُس وقت اور اُس مقام پر روتھ فاؤ نے کہا کہ ’خدا‘ کی طرف سے ان کے نصیب میں یہی لکھا ہے وہ کراچی کے اسی پسماندہ علاقے میں رہنا چاہتی ہیں۔

سوال : کراچی کے اتنے غریب اور پسماندہ علاقے میں کوڑھ کے مریضوں کے لیے ایسی کلینک کھولنا اور اسے یہاں تک پہنچانا جہاں ہزاروں مریضوں کا علاج ممکن ہو سکا، یہ سب روتھ فاؤ نے کیسے کیا؟

جواب: ساٹھ کی دہائی میں جب روتھ فاؤ جوان اور عزم اور طاقت سے بھرپور تھیں، تب انہوں نے رضاکارانہ طور پر چندے دینے والے عناصر سے لے کر امدادی تنظیموں  کے ساتھ بات چیت کی اُن سے چندہ اکٹھا کرنا شروع کیا۔

ساٹھ کے عشرے کے ابتدا میں ہی انہوں نے جذام اور تپ دق کے مریضوں کے لیے کام کرنے والے جرمن ادارے سے اس نیک کام میں امداد اور تعاون کی اپیل کی اور انہیں بہت امداد ملی۔ روتھ فاؤ کو اپنی پانچ دہائیوں پر محیطً اس جدو جہد کے دوران اب تک چالیس ملین یورو سے زائد چندے کی رقم ملی جسے انہوں نے اپنے پروجیکٹ پر خرچ کیا۔

اس لپرسی سینٹر کا آغاز ایک گراج سے ہوا تھا جو روتھ فاؤ کو ایک پاکستانی تاجر نے استعمال کے لیے کرائے پر دیا تھا۔ شروع شروع میں وہ رات کے وقت اس ایک کمرے کے کلینک میں مریضوں کو دیکھا کرتی تھیں۔ انہیں سرکاری طور پر ہسپتال بنانے کی اجازت نہیں تھی۔ انہوں نے نہایت معمولی چیزوں کی مدد سے یہ کام شروع کیا تھا۔

دیکھتے ہی دیکھتے یہ ایک باقاعدہ بڑے کلینک کی شکل اختیار کر گیا اور روتھ فاؤ کا جذام کے مریضوں کے علاج کا یہ پروجیکٹ ملک گیر سطح پر ہی نہیں پڑوسی ملک افغانستان تک پھیل گیا۔

 

سوال: کیا انہیں حکومت پاکستان کی طرف سے بھی مدد ملی یا محض غیر ملکی امداد اور رضاکارانہ طور پر ملنے والی امداد ہی سے روتھ فاؤ کام کرتی رہیں؟

جواب: انہیں شروع ہی سے حکومت پاکستان سے امداد اور تعاون ملتا رہا۔ انہوں نے جذام کے مریضوں کے علاج کے لیے معاون کاروں کی ٹیم کو تربیت دینا بھی شروع کیا اور شروع ہی سے اس تربیت کو پاکستان میں سرکاری طور پر تسلیم کیا گیا۔

ریاست کی طرف سے اب بھی اس تربیتی کورس کی مالی معاونت کی جا رہی ہے اور روتھ فاؤ ذاتی طور پر بھی اس کے لیے رقوم کی سرمایہ کاری کرتی رہیں۔ غریب ترین سے لے کر امیر ترین افراد اور معاشرتی طبقوں سے روتھ فاؤ کو بہت زیادہ مالی امداد ملتی رہی کیونکہ وہ ہر کسی کو اپنے پروجیکٹ کا قائل کر لیا کرتی تھیں۔

سوال: کیا روتھ فاؤ کا کام اسی مستعدی سے آگے بڑھ سکے گا یا ان کے جانے کے بعد اس پروجیکٹ کے رُک جانے کے خدشات پیدا ہو گئے ہیں؟

جواب: میرا خیال ہے کہ یہ کام رواں رہے گا۔ میں میری ایڈیلیڈ سینٹر کے بہت سے کارکنوں کو ذاتی طور پر جانتا ہوں۔ وہاں کے مینیجنگ ڈائریکٹر ایک جرمن ہیں، جنہوں نے روتھ فاؤ کے ساتھ 25 سال کام کرنے کا شرف حاصل کیا۔ روتھ فاؤ کی ٹیم انہی کے اصولوں پر ایک عرصے سے کام کر رہی ہے اور اُس روح کو زندہ وکھے گی۔

روتھ فاؤ تقریباً ایک عشرے سے زائد کے عرصے سے محض ماہرانہ مشاورت کا کام کر رہی تھیں انہوں نے اپنی ضعیفی کے باعث فعال کام انجام دینا چھوڑ دیا تھا۔ یہ کام جاری رہے گا اور غیر ممالک مثال کے طور پر جرمنی کی طرف سے اس پروجیکٹ کو آئندہ بھی مکمل تعاون حاصل رہے گا۔ میں خود روتھ فاؤ کے پروجیکٹ کو زندہ رکھنے اور اسے ترقی دینے کے لیے تمام تر کوششیں جاری رکھے ہوئے ہوں۔

میں نے اُن کے نام منسوب کرتے ہوئے بیس سال قبل ’روتھ فاؤ فاؤنڈیشن‘ کی بنیاد بھی رکھی ہے جس کا میں قائم مقام مینیجنگ ڈائریکٹر ہوں۔ ہم نے رضاکارانہ طور پر چندے دینے والوں سے قریب 6 ملین یورو کی رقم اکٹھا کی۔ جن میں سے ہر سال کئی لاکھ یورو امدادی رقم پاکستان بھی جاتی ہے۔

Dr. Ruth Pfau, Lepra-Ärztin
ڈاکٹر روتھ فاؤ نے پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں بھی خدمات سر انجام دیںتصویر: DAHW/H.Kutnewsky

سوال: ڈاکٹر روتھ فاؤ پاکستان اور جرمنی کی دوستی کی علامت سمجھی جاتی تھیں۔ اس تعلق کو برقرار رکھنے کے لیے کیا کیا جانا چاہیے؟

جواب: میری ایڈیلیڈ سنٹر کراچی کے کارکنوں کے ساتھ جرمنی سے ہمارا قریبی رابطہ قائم ہے اور رہے گا۔ جرمن فاؤنڈیشن برائے جذام اور تپ دق اور اس جیسی دیگر تنظیمیں قریبی تعاون سے کام کرتی رہیں گی۔ دنیا اب بدل چُکی ہے۔ گلوبل ویلج بن چُکی ہے۔ ہم کمیونیکیشن کے نت نئے ذرائع استعمال کرتے ہوئے مسلسل رابطے میں رہتے ہیں۔

سوشل میڈیا نے دنیا کو ایک دوسرے سے بہت قریب کر دیا ہے اور یہ قربت بڑھ رہی ہے۔ پاکستان اور مغربی دنیا کے مابین بہت سی باتوں میں اختلاف ہونے کے باوجود ہم دونوں معاشروں کے بیچ پُل بناتے ہوئے ایک دوسرے کے قریب آتے رہیں گے۔

ہم پاکستان کے ساتھ برابری سے بات چیت کرنا چاہتے ہیں، ہمارا مقصد کسی کو سبق پڑھانا نہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ وہ ہمارا کام دیکھیں اور ہم ان سے پوچھیں کو وہ ہم سے کیا توقعات رکھتے ہیں۔ برابری کی سطح پر کام کرتے ہوئے ہم اپنے مقاصد کو کامیابی سے آگے بڑھا سکیں گے۔ مجھے اس کا یقین ہے۔

’کوڑھیوں کو چھونے سے لوگ مرتے نہیں، امر ہو جاتے ہیں‘

50 برسوں سے جذام کے مریضوں کی خدمت میں مصروف، سسٹر جنین

سوال: کیا روتھ فاؤ نے کبھی آپ سے کسی ایسی بات کی شکایت کی ہو یا اپنی نا پسندیدگی کا اظہار کیا ہو جو انہوں نے پاکستان میں پائی؟

جواب: جی نہیں اس کے بالکل برعکس جب بھی ہم نے پاکستان کی اندرونی صورتحال، یا دہشت گردی وغیرہ کے بارے میں تحفظات کا اظہار کرنے کی کوشش کی تو وہ ہمیں روک دیتیں اور کہا کرتیں، ’’پاکستان کو کچھ وقت دو۔ تم لوگوں نے بھی بہت سا وقت لیا ہے اپنے معاشرے کو یہاں تک پہنچانے میں جہاں تم آج کھڑے ہو۔ جرمنی کی تاریخ پر نظر ڈالو چند سو سال پہلے جرمنی کہاں کھڑا تھا بلکہ پورا یورپ کن مشکلات میں گہرا ہوا تھا۔‘‘

روتھ فاؤ فاؤنڈیشن کے قائم مقام مینیجنگ ڈائرکٹر ہارالڈ مائیر پورسکی کے ساتھ کشور مصطفیٰ کی خصوصی گفتگو۔

روتھ ہمیشہ کہا کرتی تھیں ’’میں اس ملک ’پاکستان‘ سے محبت کرتی ہوں‘‘۔ انہیں پاکستان پر بڑا بھروسہ تھا۔ وہ کوئی کم عقل انسان نہیں تھیں بلکہ انہیں بخوبی اندازہ تھا تمام تر چیلنجز کا۔ تاہم انہوں نے کبھی ہمت نہیں ہاری وہ ہمیشہ اپنے عزائم کے لیے ڈٹی رہیں۔ وہ کہتی تھیں کہ انہیں پاکستان سے الفت ہے اور وہ یہیں رہنا چاہتی ہیں۔

سوال: پاکستانیوں کے لیے آپ اس موقع پر کیا پیغام دینا چاہیں گے؟

جواب: روتھ فاؤ کے آخری الفاظ مجھے ہمیشہ یاد رہیں گے۔ وہ کہتی تھیں کہ پاکستان ہی نہیں افغانستان اور دیگر ممالک بلکہ ساری دنیا اس وقت جس بحران اور مشکل حالات سے گزر رہی ہے اُس میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ لوگوں کو خود سے محبت کرنا سیکھنا چاہیے۔ وہ کہتی تھیں کہ یہ بہت ہی آسان سی بات ہے لیکن ایک گہری سانس لینے کے بعد اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’یہ سب کچھ آسان نہیں‘۔ میں تمام انسانوں کے لیے روتھ فاؤ جیسے ہمت، حوصلے اور استقلال کا متمنی ہوں۔