1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ٹیکنالوجی کی یلغار: ہیرا منڈی کی رونقیں ماند پڑگئیں

صائمہ حیدر23 اگست 2016

پاکستان کے متحرک شہر لاہور کے قلب میں ملک کا سب سے پرانا ریڈ لائیٹ ایریا صدیوں سے روایتی رقص و سرود، موسیقاروں اور طوائفوں کا مرکز رہا ہے۔ تاہم اب ٹیکنالوجی کی یلغار سے یہاں کی رونقیں ماند پڑ گئی ہیں۔

https://p.dw.com/p/1Jnen
Pakistan Tänzern im Rotlichtsviertel in Lahore
مغلیہ دور میں ہیرا منڈی اشرافیہ کے لیے روایتی مجرے ، اور رقص کی محفلیں سجانے کا مرکز ہوا کرتا تھاتصویر: Getty Images/AFP/A. Ali

ای کامرس کے انقلاب اور ٹیکنالوجی کے سیلاب میں مغلیہ تہذیب کے رکھ رکھاؤ والی لاہور کی ہیرا منڈی کے رنگ بھی پھیکے پڑنے لگے ہیں۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اس تاریخی ریڈ لائٹ ایریا کی ثقافتی اور معاشی بقا اب خطرے میں ہے۔ وہ بالکونیاں جہاں کبھی خوبصورت خواتین گاہکوں کے انتظار میں کھڑی رہا کرتی تھیں، اب ویران نظر آتی ہیں۔ خالی کمروں کے بند دروازوں پر زنگ لگ چکا ہے۔ موسیقی کے آلات بیچنے کی چند دکانیں البتہ اب بھی باقی ہیں۔ مرد حضرات ہیرا منڈی کی گلیوں میں دلچسپی تلاش کرنے کے بجائے اب ملاقات کا وقت اس حوالے سے مخصوص ویب سائٹس کے ذریعے آن لائن طے کر لیتے ہیں یا پھر سوشل میڈیا پر براہ راست خواتین سے رابطہ کر لیتے ہیں۔ ایسے میں جب ہیرا منڈی میں کاروبار مندا چل رہا ہے، ریما کنول جیسی طوائفوں نے اس علاقے کو چھوڑ دیا ہے۔ ریڈ لائٹ ایریا صدیوں پرانی بادشاہی مسجد کے نواح میں واقع ہے۔ پندرہویں اور سولہویں صدی عیسوی میں مغلیہ دور میں ہیرا منڈی اشرافیہ کے لیے روایتی مجرے ، اور رقص کی محفلیں سجانے کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ امراء اپنے بیٹوں کو شرفاء کے ادب آداب سکھانے کے لیے طوائفوں کے پاس بھیجا کرتے تھے۔

Pakistan Rotlichtsviertel in Lahore
وہ بالکونیاں جہاں کبھی خوبصورت خواتین گاہکوں کے انتظار میں کھڑی رہا کرتی تھیں، اب ویران نظر آتی ہیںتصویر: Getty Images/AFP/A. Ali

تاہم ایسٹ انڈیا کمپنی کی بر صغیر آمد کے بعد سے لوگوں میں روایتی مجرا کرنے والی رقاصہ اور طوائف کے درمیان تمیز تقریباً ختم ہو کر رہ گئی۔ جنس اور رقص آپس میں خلط ملط ہو گئے اورہیرا منڈی پر غلاظت کی چھاپ لگ گئی لیکن ریما آج بھی یہاں کے شاندار زمانے کو یاد کرتی ہیں۔ ریما کی والدہ اور ان کی نانی بھی ہیرامنڈی کی ان طوائفوں میں شامل رہی ہیں جو یہاں آنے والے مردوں کو رقص اور گائیکی سے محظوظ کیا کرتی تھیں۔ ریما نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا ،’’ لوگ ہماری عزت کیا کرتے تھے اور ہمیں فنکار کہا جاتا تھا لیکن گزشتہ ایک عشرے میں سب کچھ بدل گیا ہے اب کوئی ہماری عزت نہیں کرتا۔‘‘ ریما نے ہیرا منڈی کی ثقافت کو نقصان پہنچانے کا ذمہ دار ان لڑکیوں کو قرار دیا ہے جو اس پیشے میں کسی خاندانی پس منظر اور تربیت کے بغیرداخل ہوتی ہیں اورانہیں یہ علم نہیں ہوتا کہ گاہکوں کے ساتھ کس طرح کا برتاؤ کیا جانا چاہیے۔

Pakistan Prostituierte im Rotlichtsviertel in Lahore
ریما نے ہیرا منڈی کی ثقافت کو نقصان پہنچانے کا ذمہ دار ان لڑکیوں کو قرار دیا ہے جو اس پیشے میں کسی خاندانی پس منظر اور تربیت کے بغیرداخل ہوتی ہیںتصویر: Getty Images/AFP/A. Ali

ریما نے مزید کہا کہ ان لڑکیوں کو گاہک تلاش کرنے کے لیے اب صرف ایک موبائل فون درکار ہے جس سے وہ فیس بک اور دیگر ویب سائٹس پر اشتہار دے سکتی ہیں۔ اسی طرح رقص کے لیے اب موسیقی کے سازوں اور موسیقاروں کی ضرورت نہیں رہی۔ یہ کام یو ایس بی اسٹک کے ذریعے میوزک چلا کر بآسانی انجام دیا جا سکتا ہے۔ اسی پیشے سے وابستہ پچاس سالہ خاتون مہک کا کہنا ہے کہ کاروبار کے آن لائن ہونے کے بعد اس میں بہت بہتری آئی ہے۔