1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اورنج ٹرین : تاریخی عمارات کے قریب تعمیراتی کام پر پابندی

تنویر شہزاد، لاہور19 اگست 2016

لاہور ہائی کورٹ نے پنجاب کے دارالحکومت میں جاری اورنج لائن میٹرو ٹرین منصوبے کی راہ میں آنے والی گیارہ تاریخی عمارتوں کے قریب دو سو فٹ کی حدود میں ہر قسم کی تعمیراتی سرگرمیوں پر پابندی عائد کر دی ہے۔

https://p.dw.com/p/1Jlgv
Pakistan Lahore Baustelle Orangeline Metro
تصویر: DW/T. Shahzad

جمعے کے روز جسٹس عابد عزیز شیخ کی سربراہی میں لاہور ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ کے طرف سے جاری ہونے والے ایک سو صفحات پر مشتمل اس فیصلے میں پنجاب کے آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر جنرل کو یہ ہدایت بھی کی گئی ہے کہ وہ ان گیارہ تاریخی عمارتوں کے قریب ہونے والی تعمیراتی سرگرمیوں کے حوالے سے ان عمارتوں کو ممکنہ طور پر پہنچنے والے نقصان کے حوالے سے، عالمی معیار کے حامل غیر جانب دار ماہرین کے ذریعے ایک تازہ اسٹڈی کروائیں۔ دوسری طرف لاہور ہائی کورٹ نے میٹرو ٹرین منصوبے پر ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے دائر کی جانے والی درخواستوں کو مسترد کر دیا ہے۔

Pakistan Lahore Baustelle Orangeline Metro Plakat
تصویر: DW/T. Shahzad

یہ بات قابل ذکر ہے کہ اورنج لائن میٹرو ٹرین منصوبے کو پنجاب حکومت ایک لینڈ مارک منصوبہ قرار دیتی ہے۔ یہ 165 ارب روپے کی لاگت سے چین سے ملنے والے ایک قرضے کے ذریعے مکمل کیا جا رہا ہے ۔ حکومتی دعوؤں کے مطابق 27 کلومیٹر طویل اس میٹرو ٹرین منصوبے کے ذریعے پانچ لاکھ شہریوں کو سفر کی معیاری سہولیات فراہم ہو سکیں گی۔

یہ بات بھی اہم ہے کہ سول سوسائٹی کے نمائندے اور شہریوں کی تنظیمیں اس منصوبے کی زَد میں آنے والی تاریخی عمارتوں کی حفاظت کے حوالے سے پچھلے کئی مہینوں سے آواز اُٹھا رہی تھیں۔ عدالت کے اس فیصلے کے بعد اب شالامار باغ، گلابی باغ، بدو مقبرہ، چوبرجی، زیب النسا مقبرہ، لکشمی بلڈنگ، جنرل پوسٹ آفس، سپریم کورٹ رجسٹری بلڈنگ، ایوانِ اوقاف،سینٹ اینڈریوز چرچ اور بابا موج دریا دربار کے دو سو فٹ کے فاصلے پر تعمیری سرگرمیاں جاری نہیں رکھی جا سکیں گی۔

Pakistan Lahore Baustelle Orangeline Metro Plakat
تصویر: DW/T. Shahzad

اورنج لائن منصوبے کے حوالے سے دائر کی جانے والی درخواستوں کی پیروی کرنے والے وکیل اظہر صدیق ایڈوکیٹ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہ فیصلہ بڑی اہمیت کا حامل ہے اور اس فیصلے کے بعد ملک بھر میں تاریخی عمارتوں کو تحفظ ملے گا اور مستقبل میں ترقیاتی منصوبوں کی منصوبہ بندی بہتر انداز میں ہو سکے گی۔

انہوں نے بتایا کہ میٹرو ٹرین کے حوالے سے عدالتوں میں تین طرح کے مقدمات زیرِ سماعت ہیں۔ پہلی قسم کے کیسز میں اس منصوبے کی عدم شفافیت، غیر منصفانہ لاگت، ٹرانسپیرنسی کے قوانین کو نظر انداز کر نے اور پیپرا قوائد کی پابندی نہ کر نے کے حوالے سے بات کی گئی ہے۔ عدالت اس درخواست کی سماعت نو ستمبر کو کرنے والی ہے۔ اس کے علاوہ اس منصوبے کے لیے زمین حاصل کر نے کے لیے جو ہتھکنڈے استعمال کیے جا رہے ہیں، ان کے خلاف بھی کئی درخواستیں زیرِ سماعت ہیں،’’اس منصوبے کے ماحولیات پر ہونے والے منفی اثرات کے حوالے سے اب ہم سپریم کورٹ سے رجوع کریں گے۔‘‘

کئی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے بعد میٹرو ٹرین منصوبہ تاخیر کا شکار اور اس کی لاگت میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔ پنجاب حکومت نے لاہور ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کے لیے قانونی ماہرین سے مشورے شروع کر دیے ہیں۔ بعض حلقوں کی طرف سے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ میٹرو ٹرین کے حوالے سے جاری عدالتی سرگرمیاں اگر طول پکڑ گئیں تو اس کی تعمیر میں اتنی تاخیر ہو سکتی ہے کہ حکومت 2018 کے انتخابات میں اس کا فائدہ حاصل نہیں کر سکے گی۔

Pakistan Lahore Baustelle Orangeline Metro Plakat
تصویر: DW/T. Shahzad

اس کیس کے ایک اور درخواست گزار عبداللہ ملک نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس فیصلے سے آئین اور قانون کی فتح ہوئی ہے، ’’اس فیصلے کے اثرات بہت دور رس ہوں گے اور آئندہ کسی بھی حکومت کو یہ جرات نہیں ہو گی کہ وہ ترقیاتی کاموں کی آڑ میں قومی ورثے کو برباد کرنے کی جسارت کر سکے۔‘‘

ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کر تے ہوئے میٹرو ٹرین منصوبے سے وابستہ پنجاب حکومت کے ایک اعلیٰ افسر نے اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ عدالت نے اس فیصلے میں میٹرو ٹرین منصوبے پر تعمیراتی کام ختم کر نے کے لیے نہیں کہا ہے۔ بلکہ صرف گیارہ تاریخی عمارتوں کے نزدیک تعمیراتی کام کو بند کرنے کے لیے کہا ہے۔ ان کے بقول ان مقامات پر تعمیراتی سرگرمیاں عدالتی حکم امتناعی کی وجہ سے پہلے سے ہی بند ہیں۔

ان کے بقول اس منصوبے پر پینتالیس فیصد کام مکمل ہو چکا ہے اور تاریخی عمارتوں والے علاقوں کو چھوڑ کر باقی تمام علاقوں میں میٹرو ٹرین پراجیکٹ پر کام زور و شور سے جاری ہے، ’’ہمارے پاس اپیل کرنے کا حق موجود ہے۔ ہمیں جونہی اجازت ملی تو ہم ان گیارہ مقامات پر بھی عدالتی حکم کی روشنی میں تعمیراتی کام جلدی سے مکمل کر لیں گے۔‘‘

انہوں نے اس تاثر کی تردید کی کہ اقوام متحدہ کے اداروں نے میٹرو ٹرین منصوبے پر کام روک دینے کے لیے کہا ہے۔