ٹھٹھہ اور شہداد کوٹ کو ابھی بھی سیلابی ریلے سے خطرہ
28 اگست 2010کراچی سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق جنوبی سندھ کے علاقوں میں، جہاں سیلابی پانی کا ایک بہت بڑا ریلا ممکنہ طور پر مزید تباہی پھیلا سکتا ہے۔ حکام کی کوشش ہے کہ ٹھٹھہ اور شہداد کوٹ کو پوری طرح زیر آب آنے سے کسی نہ کسی طرح بچایا جائے۔
ان قصبوں اور جنوبی سندھ کے دیگر علاقوں کو ملکی تاریخ کے سب سے تباہ کن سیلابوں کے نتیجے میں زیر آب آجانے سے بچانے کے لیے حکام گزشتہ کئی روز سے کوشش کر رہے ہیں تاہم یہ خطرات بھی موجود ہیں کہ یہ قصبے اور ان کے نواحی علاقے سیلاب کی زد میں آ سکتے ہیں۔
مون سون کی غیر معمولی حد تک شدید بارشوں کے بعد آنے والے یہ سیلاب وسیع تر مادی نقصانات کا باعث بن رہے ہیں۔ پورے پاکستان میں ان سیلابوں کی وجہ سے سولہ سو سے زائد شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان سیلابوں کے باعث ملک کا تقریبا پانچواں حصہ پانی میں ڈوب چکا ہے اور بیس ملین سے زائد شہری متاثر ہوئے۔ ان متاثرین میں کم ازکم وہ چھ ملین شہری بھی شامل ہیں، جو بے گھر ہو چکے ہیں۔
ان میں سے ایک ملین شہری گزشتہ محض چند روز کے دوران سندھ کے مختلف علاقوں میں اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔
انہی سیلابوں کے باعث پاکستانی معیشت ، زراعت اور بنیادی ڈھانچے کو مجموعی طور پر ایک ہزار ارب روپے سے زائد کا نقصان بھی ہوا جبکہ اربوں مالیت کی کھڑی فصلیں تباہ ہو چکی ہیں۔
تازہ ترین رپورٹوں کے مطابق پاکستان میں ان سیلابوں سے اب تک نو ملین ایکڑ زرعی اراضی متاثر ہوئی ہے، جس کے بعد زرعی شعبے کی آئندہ پیداوار بھی کم ازکم ایک چوتھائی کم رہے گی۔
دریں اثنا اقوام متحدہ کے ذرائع نے اس تشویشناک صورتحال کی نشاندہی کی ہےکہ پاکستان میں مجموعی طور پر دو کروڑ سے زائد سیلابی متاثرین میں شامل لاکھوں بچوں میں سے ہزار ہا کی زندگی کو ابھی بھی شدید خطرات لاحق ہیں۔
اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ پینے کے صاف پانی کی عدم موجودگی اور ہنگامی بنیادوں پر مناسب اشیاء خوراک دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے غذائی کمی اور مختلف بیماریوں کی وجہ سے ہزار ہا بچے موت کے منہ میں جا سکتے ہیں۔
رپورٹ: عصمت جبیں
ادارت : عدنان اسحاق