1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سوات:سیلاب سے متاثرہ 15 بچےجاں بحق

27 اگست 2010

سیلاب کی تباہ کاریوں نے پاکستان کے زیادہ تر حصے کو متاثرکیا ہے تاہم جہاں سب سے زیادہ انسانی جانیں صوبہ خیبرپختونخوا میں ضائع ہوئیں وہیں اب امدادی سامان تک رسائی کے معاملے میں بھی اس صوبے کو مشکلات کا سامنا ہے۔

https://p.dw.com/p/Oxnb
تصویر: AP

اس کے باعث ملاکنڈ ڈویژن کاضلع سوات بری طرح متاثر ہورہا ہے۔ ضلع سوات کے علاقے کالام میں اشیائے خوردونوش، ادویات اورصاف پانی کی قلت کے باعث اب تک پندرہ بچے جاں بحق ہوچکے ہیں۔ کالام سے مینگورہ پہنچنے والے محمد افضل خان کاکہنا ہے کہ ” یہ بچے پیٹ کی بیماری کے باعث جاں بحق ہوئے ہیں جو ادویات کی عدم دستیابی کی وجہ سے وباءکی شکل اختیار کرچکی ہے۔ کالام کے مختلف دیہاتوں میں اس وقت ہزاروں افراد سیلابی پانی میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ان افراد تک خوراک پہنچانے میں شدید مشکلات کا سامنا کرناپڑرہا ہے۔“

سماجی کارکن اور پاکستان تحریک انصاف کے ایک رہنماء ظفراللہ خٹک کاکہناہے کہ ”اب تک مختلف دشوار گذار راستوں سے پانی، ادویات، کمبل اوراشیائے خوردونوش کے تین ٹرک متاثرین تک پہنچائے جاچکے ہیں، تاہم بعض علاقوں تک سامان پہنچانا انتہائی مشکل ہے۔ انکا کہناہے کہ چونکہ فوج کے پاس وسائل ہیں اس لیے امدادی سامان پہنچانے کیلئے انکے ساتھ رابطے میں ہیں۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ وہ فوج کے ذریعے اتوار تک خوراک و ادویات اور پانی کی ایک بڑی مقدار متاثرین تک پہنچانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔

28جولائی سے شروع ہونے والی بارشوں اورسیلاب کی وجہ سے بالائی سوات کا ملک کے دیگر علاقوں سے رابطہ منقطع ہوچکا ہے۔ تمام رابطہ پل سیلابی پانی میں بہہ گئے ہیں جبکہ پہاڑی راستے مشکل اور طویل ہونے کی وجہ سے عبور کرنا عام افراد کے بس کی بات نہیں۔ بعض علاقوں میں پانی اب خطرناک حد سے نیچے جاچکا ہے لیکن یہاں ابھی تک رابطہ پلوں کی بحالی کا آغاز نہیں کیا گیا۔ خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ نے اس بات کی شکایت وزیراعظم کوایک خط کے ذریعے کی ہے۔ ان کا کہنا ہےکہ وفاقی محکمہ مواصلات رابطہ پلوں کی بحالی میں سستی سے کام لے رہا ہے جبکہ آج بھی ہزاروں افراد امداد کے منتظر ہیں۔

NO FLASH Pakistan Überschwemmung
"بعض علاقوں میں پھنسے متاثرین تک امدادی سامان پہنچانا انتہائی مشکل ہے۔"تصویر: picture-alliance/dpa

قابل ذکر بات یہ ہے کہ صوبہ خیبرپختونخوا میں سیلاب سے بچاﺅ کیلئے واضح حکمت عملی نہ ہونے کی بناء پر دس اضلاع میں 75فیصد چاول، 59فیصد لائیو سٹاک اور 45 فیصد گندم کی فصل کے علاوہ سبزی اور اجناس کی ہزاروں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہوئیں ہیں زرعی یونیورسٹی پشاور کے ماہرین کے مطابق لائیو سٹاک میں قریب 35ارب 8کروڑ جبکہ زراعت وآبپاشی میں 23ارب روپے کانقصان ہواہے۔

رپورٹ فریداللہ خان

ادارت : افسر اعوان

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں