’عالمی نظام میں مداخلت قبول نہیں‘، روس کو امریکی انتباہ
7 ستمبر 2016امریکی وزیر خارجہ ایش کارٹر نے یہ باتیں بدھ سات ستمبر کو انگلینڈ میں آکسفورڈ یونیورسٹی کے طلبہ سے اپنے ایک خطاب میں کہیں۔ نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق کارٹر نے اس امر کی وضاحت نہیں کی کہ روس دراصل کیا کچھ کرنےکی کوشش کر رہا ہے یا آیا وہ امریکی ڈیموکریٹک پارٹی کے مختلف مراکز میں ہیکنگ کے اُن حملوں کی طرف اشارہ کر رہے تھے، جن کا پتہ آٹھ نومبر کے صدارتی انتخابات کے لیے حتمی امیدواروں کے انتخاب کے مرحلے کے دوران چلا تھا۔ تب امریکی حکام اور سائبر سکیورٹی کے ماہرین نے الزام عائد کیا تھا کہ یہ کام روسی حکومت کے لیے کام کرنے والے ہیکرز کا ہے۔
ماسکو حکومت اس امر کی تردید کر چکی ہے کہ وہ ہیکنگ کے ان حملوں میں کسی بھی طرح سے ملوث ہے۔
ایش کارٹر نے اپنے خطاب میں کہا:’’ہم روس کو ایک دشمن کے طور پر نہیں دیکھنا چاہتے لیکن کوئی کسی غلط فہمی میں نہ رہے، ہم اپنے حلیفوں، اصولوں پر مبنی بین الاقوامی نظام اور اُس مثبت مستقبل کا دفاع کریں گے، جو اس نظام کی بدولت ہم سب کا مقدر بنے گا۔‘‘
کارٹر نے مزید کہا:’’ہم ایسی کوششوں کے خلاف مزاحمت کریں گے، جن کا مقصد ہماری اجتماعی سلامتی کو کمزور کرنا ہو گا اور ہم ایسی کوششوں کو بھی نظر انداز نہیں کریں گے، جن کا مقصد ہمارے ہاں جاری جمہوری عوامل میں مداخلت ہو گا۔‘‘
روئٹرز کے مطابق امریکا کے لیے روس کے ساتھ سفارتی سطح پر ایک متوازن تعلق رکھنا بھی بہت اہم ہے، خاص طور پر آج کل کے حالات میں، جب امریکی وزیر خارجہ جان کیری شام میں جاری خانہ جنگی کے خاتمے کے سلسلے میں ماسکو کے ساتھ مل کر کوششیں کر رہے ہیں۔
کارٹر نے شام میں فائر بندی پر اتفاقِ رائے اور تنازعے کے خاتمے کے لیے شامی حکومت کو کسی عبوری حل پر مجبور کرنے کے سلسلے میں کیری کی اب تک کی کوششوں پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ شام سے آنے والی خبریں حوصلہ افزا نہیں ہیں:’’فیصلہ روس کو کرنا ہے اور نتائج کی ذمہ داری بھی اُسی کی ہو گی۔‘‘
کارٹر بدھ کی شام برطانوی وزیر دفاع مائیکل فیلن سے ملاقات کر رہے ہیں۔ توقع کی جا رہی ہے کہ اس ملاقات میں کارٹر 2014ء میں کریمیا کے روس کے ساتھ جبری الحاق کے بعد سے روس کے خلاف جاری دباؤ کو برقرار رکھنے کی اہمیت پر زور دیں گے۔ اسی اثناء میں یورپی یونین نے بھی روس کے خلاف پابندیوں میں مزید چھ ماہ کی توسیع کر دی ہے۔