1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

روس اور مغرب کے مابین تناؤ، ’غیرمتوقع جھڑپ‘ کا خطرہ

عاطف بلوچ19 جون 2015

ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ روس اور مغرب کے مابین بڑھتی ہوئی کشیدگی کسی ایسی ’ غیر متوقع جھڑپ‘ کا باعث بن سکتی ہے، جو دراصل دونوں جوہری طاقتیں ہی نہیں چاہتی ہیں۔

https://p.dw.com/p/1FjsD
مغرب اور روس کے مابین باہمی تعلقات سرد جنگ کے بعد نچلی ترین سطح پر پہنچ چکے ہیںتصویر: Reuters/G. Dukor

امریکا کی طرف سے مشرقی یورپ اور بالٹک کی ریاستوں میں بھاری عسکری سازوسامان روانہ کرنے کے اعلان کے چند روز بعد ہی روس نے کہا کہ وہ بھی اپنی فوجی طاقت بڑھانے کے لیے چالیس نئے بین البراعظمی بیلیسٹک میزائل فوج کے سپرد کرے گا۔ روس اور یورپ کی طرف سے ایک دوسرے کو دی جانے والی دھمکیوں میں یہ ایک تازہ ترین پیشرفت ہے۔

یہ صورتحال واضح کرتی ہے کہ روس اور مغرب دونوں ہی اسلحے کی ایک ایسی نئی دوڑ میں شریک ہو چکے ہیں، جو سرد جنگ کے زمانے میں دیکھی گئی تھی۔ تاہم ایک بڑا خطرہ یہ ہے کہ اس کشیدگی کے باعث غیر متوقع طور پر اچانک لڑائی کا سلسلہ شروع ہو سکتا ہے۔

یورپی کونسل برائے خارجہ امور سے وابستہ ’قدری لِیک‘ کہتی ہیں، ’’میرے خیال میں یہ صورتحال انتہائی خطرناک ہے۔ دونوں جانب سے ایک دوسرے کی نیتوں کو پڑھنے میں غلطی دیکھی جا رہی ہے۔‘‘ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بالخصوص ماسکو حکومت مغربی ممالک پر زیادہ شکوک رکھتا ہے۔ روسی امور کی ماہر ’قدری لِیک‘ کے بقول، ’’ایسا حقیقی خطرہ موجود ہے کہ روس کسی ایسے حملے کے خلاف بھی جوابی کارروائی کر سکتا ہے، جو صرف اس کی ذہنی اختراع ہو۔ ماسکو حکومت خیالی حملے کا حقیقی دنیا میں جواب دے سکتا ہے۔‘‘

’جنگ کی صورت میں سنگین نتائج‘

’قدری لِیک‘ ایسے ماہرین میں شامل ہیں، جو کسی ممکنہ حادثاتی تنازعے کے سدباب کے لیے روس اور یورپی اتحادی ممالک کی فوجی کمانوں کے مابین ایک براہ راست رابطے پر زور دیتے ہیں تاکہ کسی غلط فہمی کو پیدا ہونے سے قبل ہی اسے ختم کر لیا جائے۔ یہ امر اہم ہے کہ روس کی طرف سے کریمیا کو اپنا حصہ بنانے اور مشرقی یوکرائن میں باغیوں کی حمایت کرنے کے نتیجے میں مغرب اور روس کے مابین تعلقات سرد جنگ کے بعد پہلی مرتبہ انتہائی کشیدہ ہو چکے ہیں۔

واشنگٹن میں سینٹر فار اسٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز سے منسلک جیفری مینکوف نے مشرقی یوکرائن کے تنازعے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ روس اور یورپی ممالک کے مابین تناؤ اس قدر شدید ہو گیا ہے کہ حادثات اور غلط فہمیوں کے امکانات بہت زیادہ بڑھ چکے ہیں، ’’لیکن میرا خیال نہیں کہ ان دونوں میں سے کوئی لڑائی کرنا چاہتا ہے۔۔۔ اگر کوئی جنگی مہم شروع ہوئی تو دونوں کے پاس ہی جوہری ہتھیار ہیں۔ دونوں سمجھتے ہیں کہ لڑائی کی صورت میں نتائج انتہائی سنگین ثابت ہوں گے۔‘‘

دوسری طرف کچھ ماہرین کے مطابق روس کے تناظر میں ایسے علاقوں میں مغربی مداخلت کوئی مناسب اقدام نہیں، جو سابقہ سوویت یونین کے حصے تھے۔ روس میں یہ تاثر بھی پایا جاتا ہے کہ یوکرائن کے کریملن نواز سابق یوکرائنی صدر کے خلاف شروع ہونے والے عوامی مظاہروں میں مغرب نے بھی کردار ادا کیا تھا، جس کے نتیجے میں وکٹور یانوکووچ کی حکومت ختم ہو گئی تھی۔

Putin Wirtschaftsforum in Sankt Petersburg
’ماسکو حکومت خیالی حملے کا حقیقی دنیا میں جواب دے سکتا ہے‘تصویر: Reuters/G.Dukor

’فوجی کارروائی نہ کرنا مغرب کی غلطی‘

ایجنسی فار پولیٹیکل اینڈ اکنامک کمیونیکیشنز کے روس نواز ڈائریکٹر دمتری اورلوف کے مطابق مشرقی یورپ کے لیے امریکا کی طرف سے بھاری فوجی سازوسامان روانہ کرنے کے جواب میں روسی فوجی کمک میں چالیس نئے بین البراعظمی بیلیسٹک میزائلوں کو شامل کرنے کا اعلان منطقی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ماسکو حکومت کو امریکا کی طرف سے لاحق ممکنہ خطرات سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی تیار کرنا ہے لیکن وہ جنگ کی تیاری میں نہیں ہے۔

تھنک ٹینک ’رائل یونائٹیڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ‘ سے منسلک محقق ایگور سوتایجن کا البتہ کہنا ہے کہ روسی اقدامات کے باوجود مغرب کی طرف سے یوکرائن میں فوجی کارروائی نہ کرنے کے باعث ماسکو حکومت کو شہ ملی ہے، ’’وہ (روسی) بہتے پانی کے مانند ہیں۔ اگر انہیں کھلا راستہ ملے گا تو وہ آگے بڑھتے جائیں گا اور اگر ان سامنے کنکریٹ ہو گا تو وہ وہیں ٹھہر جائیں گے۔‘‘

ایگور سوتایجن نے یہ بھی کہا کہ روس کی طرف سے گزشتہ برس بھی اڑتیس نئے بین البراعظمی بیلیسٹک میزائلوں کو فوج کے حوالے کیا گیا تھا اور اس تناظر میں رواں برس ایسے نئے مزید چالیس میزائلوں کا اعلان کوئی انوکھی بات نہیں۔ یہ امر بھی اہم ہے کہ روسی صدر پوٹن جلد ہی بہّتر البراعظمی بیلیسٹک میزائلوں کو ریٹائر بھی کرنے والے ہیں۔