طالبان کا مقابلہ ہالبروک کے لئے بڑا سوال
13 فروری 2009امریکی خفیہ ادارے نے گزشتہ سال ہی اس امر کی طرف نشاندہی کر دی تھی کہ افغانستان میں طالبان عسکریت پسندوں کا زور بڑھ رہا ہے۔
نئی امریکی حکومت نے برسر اقتدار آتے ہی افغان پالیسی کی طرف خصوصی توجہ مرکوز کی۔ خطّے کی صورتحال کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے امریکہ کے خصوصی مندوب ریچرڈ ہالبروک پاکستان کا چار روزہ دورہ مکمل کرنے کے بعد جمعہ کے روز افغانستان پہنچے۔ طالبان کی طرف سے جاری جنگ کا جواب کس طرح دیا جائے؟ یہ دشوار سوال ہال بروک کے دورہ افغانستان کا مرکزی موضوع رہے گا۔
ایک طرف انکی حکومت کے امیج کا سوال ہے دوسری جانب افغانستان میں روز بروز بگڑتی ہوئی سلامتی کی صورتحال افغان عوام سے لے کر امریکی قیادت میں افغانستان متعین بین الاقوامی فوج کے لئے گہری تشویش کا باعث بنتی جا رہی ہے۔ ہالبروک نے کابل حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے کمزور اور بدعنوان قرار دیا جس کا جواب افغان صدر کرزئی نے ان الفاظ میں دیا: ’’میں اس بات سے اتفاق نہں کرتا ہوں کہ افغان حکومت نے دھشت گردی کے خلاف جنگ میں کوئی کامیابی حاصل نہیں کی ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ ہم نے سن دو ہزار ایک میں ملک سے طالبان اور القاعدہ کو ڈیڑھ ماہ کے اندر اندر شکست خوردہ کر دیا تھا۔ اور وہ بھی محض 500 امریکی فوجیوں کی مدد سے۔ ہمارے اور امریکی حکومت کے مابین چند معاملات میں کشیدگی پائی جاتی ہے۔ مثلاً شہریوں پر حملوں، افغان باشندوں کی گرفتاریوں اور رات کے اندھیرے میں شہریوں کے گھروں پر کیے جانے والے حملے، جو عام شہریوں کی ہلاکتوں اور زخمی ہونے کا باعث بن رہے ہیں۔‘‘
حامد کرزئی نے کہا کہ ہالبروک کے دورے کے دوران دونوں ملکوں کے مابین اس امر پر اتفاق ہوا ہے کہ افغانستان کے سیاسی اور سماجی معاملات میں افغان عوام کی بھرپور شمولیت سے ہی حالات بہتر ہوں گے۔ افغان صدر نے کہا کہ مغربی میڈیا میں اس قسم کی خبریں گردش کر رہی ہیں کہ امریکی انتظامیہ کابل حکومت اور خود ان کی ذات سے کافی ناخوش ہے۔ ’’یہ کسی حد تک سچ بھی ہے تاہم انہیں افانستان کے صدر کی حیثیت سے اپنے عوام کے جان و مال کو ہر ممکن تحفظ دینا ہے۔‘‘ کرزئی کے مطابق یہی امریکہ اور اسکی دھشت گردی کے خلاف جنگ کے لئے کی کامیابی کے حق میں ہے۔
امریکہ کے خصوصی مندوب برائے پاکستان اور افغانستان رچرڈ ہالبروک نے کابل میں افغان وزراء کے علاوہ افغانستان کی خفیہ سروس کے چیف امر اللہ صالح سے بھی ملاقات کی۔ صالح نے یقین دلایا کہ افغان حکام سلامتی کی صورتحال پر قابو پانے کے لئے ممکنہ کوششیں کر رہے ہیں تاہم ان کا کہنا تھا: ’’ہمارا دشمن ہم پر سامنے سے وار کرنے کی ہمت نہیں کرے گا بلکہ ایسے نرم گوشوں کی تلاش میں رہتا ہے جہاں سے وہ ہم پر چھپ کر حملہ کر سکے۔‘‘
طالبان نے دیگر علاقوں میں تو اس حکمت عملی کے تحت خاصی کامیابی حاصل کر ہی لی تھی تاہم اب تو یہ عسکریت پسند دارلحکومت کابل اور اسکے گرد ونواح کے لئے بھی خطرے کا باعث سمجھے جا رہے ہیں۔
امریکہ کے وعدے کے مطابق افغانستان میں مزید تیس ہزار فوجیوں کی تعیناتی کس حد تک مددگار ثابت ہوگی، یہ سوال اتنا ہی دشوار ہے جتنا کہ امریکہ کے خصوصی مندوب ہالبروک کا دورہء افغانستان اور ان کی افغان حکام کے ساتھ بات چیت۔ ان کے دورے سے ایک روز قبل افغانستان میں سرکاری عمارتوں پر ہونے والے تین خود کش بم حملوں نے عالمی برادری کی توجہ ایک بار پھر پورے طریقے سے افغانستان کی صورتحال کی طرف مبذول کر وادی۔