شامی بچے کے بنائے خاکے نے بالغوں کو گونگا کر دیا
25 ستمبر 2015جرمن دارالحکومت برلن سے جمعہ پچیس ستمبر کے روز موصولہ نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق اس خاکے میں اس کے بنانے والے بچے نے اپنے جنگ سے تباہ حال وطن میں ہولناک زندگی اور جرمنی میں پرسکون زندگی کا موازنہ کیا ہے۔
جنوبی جرمن صوبے باویریا میں وفاقی پولیس کے ترجمان تھوماس شوائیکل نے ڈی پی اے کو بتایا کہ جس طرح اس بچے نے ایک سادہ کاغذ پر اپنے ذاتی تجربے میں آنے والی دو مختلف دنیاؤں اور ان سے جڑے حقائق کو تصویری شکل دی ہے، وہ ایک نابالغ ذہن کی طرف سے اپنی سوچ کے اظہار کی ایک ’بہت طاقت ور‘ مثال ہے۔
اس ڈرائنگ میں اس شامی مہاجر بچے نے، جو اس وقت باویریا میں پاساؤ کے شہر میں مقیم ہے، اپنی سوچ کا اظہار دو حصوں میں کیا ہے۔ اس ڈرائنگ کے بائیں نصف حصے میں شام میں جنگ اور قتل و غارت کی ہولناک عکاسی کی گئی ہے۔ شامی کے قومی پرچم کے نیچے ایک تباہ شدہ گھر اور ایک ایسا منظر جس میں زمین پر ہتھیار اور انسانی اعضاء بکھرے ہوئے ہیں اور ایک خاتون، جس کا ایک پاؤں غائب ہے، بیساکھیوں کے سہارے چلنے کی کوشش کر رہی ہے۔
ساتھ ہی اس ڈرائنگ کے دائیں نصف حصے میں، جو اس بچے کے مطابق جرمنی ہے، جرمن پرچم کے نیچے چلتے ہوئے دو افراد اپنے سوٹ کیس اٹھائے ہوئے ایک گھر کی طرف جا رہے ہیں۔ ڈرائنگ کے اسی حصے میں جرمنی کے جھنڈے اور ’پولیس‘ کے لفظ کے قریب ہی دل بنائے گئے ہیں۔
باویریا میں وفاقی جرمن پولیس کی صوبائی شاخ کی طرف سے اس تصویر کو سوشل میڈیا ویب سائٹ ٹوئٹر پر جرمن زبان میں Sprachlos یا انگریزی میں Speechless کے ہیش ٹیگ کے ساتھ شیئر کیا گیا، تو دیکھتے ہی دیکھتے یہ تصویری پیغام نہ صرف تین ہزار سے زائد مرتبہ ری ٹویٹ کیا گیا بلکہ اسے قریب پونے تین ہزار صارفین نے اپنا ’فیورٹ ٹویٹ‘ بھی قرار دیا۔ جرمن اخبارات اور نشریاتی اداروں کی شہ سرخیوں میں بھی اس ڈرائنگ کا ذکر ہر جگہ پڑھنے، دیکھنے اور سننے میں آ رہا ہے۔