سمارٹ اور انٹیلی جنٹ لباس، فائدے بھی خطرات بھی
16 اگست 2015جرمن شہر ماگڈیبرگ اسٹینڈل یونیورسٹی برائے اپلائیڈ سائنسز کی پروفیسر سٹیفی ہوسلین نے اس نئی ایجاد کے بارے میں بتایا ہے کہ اس دستانے کی تیاری میں جدید ٹیکنالوجی استعمال کی گئی ہے۔ اس ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی مدد سے سماعت سے محروم افراد سگنلز کو ڈی کوڈ کرتے ہوئے الفاظ کی شکل میں انہیں سمجھ سکیں گے۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ یوں بہرے افراد گفتگو کو سمجھ سکیں گے، بالخصوص ایسے افراد کی گفتگو جو اشاروں کی زبان نہیں سمجھتے ہیں۔
انچاس سالہ پروفیسر ہوسلین کے بقول اس دستانے کا ماڈل انتہائی بنیادی ہے اور اس میں کوئی پیچیدگی نہیں ہے، ’’لیکن کھیلوں کی مصنوعات بنانے والی کمپنیاں اس کا پروٹو ٹائپ تیار کر رہی ہیں۔‘ ٹیکسٹائل اور الیکٹرانک کے ربط کو ’ویئرایبل ٹیکنالوجی‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ ’ویئرایبل ٹیکنالوجی‘ میں دراصل لباس یا اس کے کسی حصے میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی نصب ہوتی ہے۔ آج کے دور میں اس ٹیکنالوجی میں صرف بازوؤں پر پہننے والے فزیکل فٹنس والے بینڈز ہی نہیں بلکہ دیگر مصنوعات بھی متعارف کرائی جا چکی ہیں۔
اب ایسی جیکٹیں بھی تیار کی جا رہی ہیں جو گرمی میں ٹھنڈک پہنچاتی ہیں۔ ایسے جوتوں کے تجربات بھی کیے جا رہے ہیں، جو منزل تک پہنچانے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ تاہم بالخصوص جرمنی میں سمارٹ فیشن ابھی کچھ حلقوں میں ہی مقبول ہو سکا ہے۔ ہوسلین کے مطابق البتہ جلد ہی یہ فیشن عام صارفین میں بھی مقبولیت حاصل کر لے گا۔ وہ کہتی ہیں، ’’مصنوعات جتنی بہتر ہوں گی، لوگ اس پر زیادہ رقوم خرچ کرنے پر رضا مند ہو جائیں گے۔‘‘ پروفیسر سٹیفی ہوسلین کہتی ہیں، ’’ہمارے اسٹوڈنٹس ایسی سائنسی مصنوعات تیار کرنے کی کوشش میں ہیں، جو چمکتی روشنیوں سے زیادہ خصوصیات کی حامل ہوں۔‘‘
برلن میں Forschungskuratorium Textil سے وابستہ کلاؤس جینسن کے بقول ، ’’امریکا میں بننے والی کئی سائنسی مصنوعات جرمنی میں بھی دستیاب ہیں۔‘‘ جینسن جرمنی کے ایسے سولہ اداروں کے مابین رابطہ کاری کے فرائض بھی سر انجام دیتے ہیں، جو ٹیکسٹائل پر تحقیق میں سرگرم ہیں۔ یہ ادارے ایسے منصوبہ جات پر بھی کام کر رہے ہیں، جن کا مقصد ’سمارٹ جینز‘ تیار کرنا ہے۔ یہ پتلونیں پہننے والے کے ساتھ انٹریکٹ کرتے ہوئے کئی کام سر انجام دیں سکیں گی۔ مثال کے طور پر ان جینز میں ’ٹچ اسکرین‘ نصب ہو گی، جس کی مدد سے نہ صرف موبائل فون پر کمانڈز دی جا سکیں گی بلکہ اس کی مدد سے روشنیاں جلائی اور بجھائی بھی جا سکیں گی۔
اس ٹیکنالوجی کے تناظر میں ہوسلین کہتی ہیں کہ لباسوں میں الیکٹرانک ڈوائسز کا استعمال کچھ زیادہ سمارٹ نہیں ہے۔ دل کی دھڑکن یا کلوریز کے بارے میں اطلاع دینے والے لباس کی معلومات غلط ہاتھوں میں بھی جا سکتی ہیں۔ صارفین کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے متعدد سرگرم کارکنان خبردار کر چکے ہیں کہ ’سمارٹ ٹیکنالوجی‘ سے جمع کیا گیا ڈیٹا چوری کرنا آسان ہے، اس لیے اس محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔
ہوسلین بھی کہتی ہیں کہ سمارٹ اور انٹیلی جنٹ لباس کے فائدے تو ہیں لیکن اس سے خطرات بھی جڑے ہوئے ہیں۔ وہ ذاتی طور پر ایسا لباس پہننے کے حق میں نہیں ہیں لیکن وہ ایسا ہینڈ بیگ استعمال کرتی ہیں، جس میں ٹریکنگ سینسر نصب ہے، یوں اگر وہ اپنا بیگ کہیں بھول جائیں تو انہیں معلوم ہو سکتا ہے کہ وہ کہاں ہے۔