1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ٹیکنالوجی انسانی جسم کا حصہ بنتی ہوئی

عاطف بلوچ1 اکتوبر 2013

ماہرین کو یقین ہے کہ اگلے چند سالوں میں سائنسی ترقی کی بدولت انسانی مزاج اور رویوں کا انسانی جسم سے بندھے آلات پر انحصار بڑھتا چلا جائے گا۔

https://p.dw.com/p/19sOc
تصویر: REUTERS/Google/Handout

اب ایسے میوزک پلیئرز بنائے جائیں گے، جن کی دھنیں آپ کے دلوں کی دھڑکنوں کے ساتھ مطابقت رکھتی ہوں گی اور ایسے سویٹرز بھی، جن کے رنگ آپ کے جذباتی رویوں کے ساتھ تبدیل ہوتے چلے جائیں گے۔ مثال کے طور پر جب آپ پُرسکون ہوں گے تو سویٹر کا رنگ نیلا ہو جائے گا اور جب غصے میں آئیں گے تو اس کا رنگ سرخ ہو جائے گا۔ اسی طرح آئندہ سالوں میں ایسے ’ویکیوم شوز‘ بھی مارکیٹ میں موجود ہوں گے، جو آپ کے چلنے کے ساتھ ساتھ خود بخود پیچھے صفائی بھی کرتے جائیں گے۔

سائنسی دنیا میں ہلچل مچانے والے دماغ ایسے آلات بھی بنا چکے ہیں، جن سے آپ کسی ڈاکٹر کے پاس جائے بغیر ہی اپنی صحت کے حوالے سے تازہ ترین معلومات حاصل کر لیتے ہیں۔ اب اس میں مزید ترقی کے نتیجے میں مستقبل میں ایسی جیولری بھی بنائی جائے گی، جو آپ کو اپنی کیلوریز ضائع کرنے کے حوالے سے اپ ٹو ڈیٹ رکھے گی، یعنی ایسے نیکلس، پازیبیں اور ہاتھوں میں پہننے والے کڑے وغیرہ، جو جسمانی ایکٹیویٹی کا لیول نوٹ کرتے ہوئے آپ کی روزمرہ زندگی میں آپ کو بتائیں گے کہ آپ ایک مخصوص وقت میں کتنی کیلوریز ضائع کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

junge frauen verschicken sms mit dem handy
لیپ ٹاپ کمپیوٹرز، اسمارٹ فونز اور دیگر نت نئی ایجادات کے ساتھ ساتھ ویئرایبل ٹیکنالوجی بھی ترقی کر رہی ہےتصویر: Fotolia/Picture-Factory

ٹیکنالوجی کی دنیا سے وابستہ منیش چندرا کہتے ہیں، ’’ہم سب تسلیم کرتے ہیں کہ ٹیکنالوجی کی یہ ریس اب شروع ہو چکی ہے اور میرا خیال ہے کہ آئندہ برس ہی اس حوالے سے کچھ نئی ایجادات سامنے آ جائیں گی۔‘‘ منگل کو امریکی شہر سان فرانسسکو میں ’ویئرایبل ٹیکنالوجی کانفرنس‘ اور ایک فیشن شو کا اہتمام کیا گیا تھا، جن میں ویئرایبل ٹیکنالوجی یعنی ایسے سائنسی آلات رکھے گئے تھے، جنہیں انسان اپنی روزمرہ کی زندگی میں لباس یا جیولری کی طرح پہن سکتے ہیں۔

گزشتہ کچھ عرصے سے عام استعمال ہونے والے لیپ ٹاپ کمپیوٹرز، اسمارٹ فونز اور دیگر نت نئی ایجادات کے ساتھ ساتھ ویئرایبل ٹیکنالوجی بھی ترقی کر رہی ہے۔ تاہم رواں برس ’گوگل گلاسز‘ کی نمائش اور ایپل کی ’آئی واچ‘ کی افواہوں کے بعد اس ٹیکنالوجی میں لوگوں کی دلچسپی کچھ بڑھ سی گئی ہے۔ مبصرین کے مطابق آئندہ کچھ سالوں میں ایسے ویئرایبل آلات میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد دلچسپی لے گی اور اس مارکیٹ کا حجم بھی بڑھ جائے گا۔

اگرچہ انسان صدیوں سے ویئر ایبل ٹیکنالوجی یعنی جیبی گھڑیوں اور قطب نماؤں سے استفادہ کر رہے ہیں تاہم اب اس صنعت میں سائنسی ترقی کی بدولت نفاست پیدا ہوتی جا رہی ہے اور ان آلات کا سائز چھوٹے سے چھوٹا ہوتا جا رہا ہے۔ جارجیا میں ٹیکنالوجی کے ایک پروفیسر تھاڈ اسٹارنر کہتے ہیں، ’’چونکہ ویئر ایبل آلات میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے، اس لیے صارفین کو ان کے ساتھ مطابقت پیدا کرنا ہو گی۔‘‘ ان کے بقول سائنسی آلات میں بہت بڑی تبدیلیاں آ رہی ہیں، ایسی تبدیلیاں جن کا لوگوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔‘‘

دوسری طرف کچھ ماہرین ایسی ایجادات کو تعجب کی نگاہ سے بھی دیکھ رہے ہیں۔ Drexel یونیورسٹی کے فیشن اور ٹیکنالوجی لیبارٹری کے ڈائریکٹر Geneviève Dion سوال کرتے ہیں کہ کیا لوگ واقعی یہ چاہتے ہیں کہ ان کی شرٹ کے فرنٹ پر ٹچ اسکرین ہو۔ کیا یہ معاشرتی سطح پر قابل قبول ہو گا کہ جسم پر موجود کپڑوں پر بنائے گئے ٹچ اسکرین کمپیوٹرز کو دوسرے لوگ اپنی انگلیوں سے دباتے رہیں؟ انہوں نے کہا، اس سوال کا جواب ہے، ’نہیں، بالکل نہیں‘۔