جرمنی سلامتی کونسل کا رکن، ڈوئچے ويلے کا تبصرہ
13 اکتوبر 2010جرمنی، سلامتی کونسل کے غير مستقل رکن کی حيثيت سے کوئی معجزہ نہيں دکھا سکتا۔ اگر وہ ايسا کرنے کی صلاحيت بھی رکھتا ہوتب بھی سلامتی کونسل کی ساخت ہی اُس کی راہ ميں آڑے آ جائے گی کيونکہ اس ميں آخری فيصلے کا حق صرف سلامتی کونسل کے مستقل رکن ممالک، يعنی امريکہ، روس، برطانيہ، فرانس اور چين کو حاصل ہے۔ اس کے باوجود جرمن وزيرخارجہ گیڈو ویسٹر ویلے اپنے ملک کے، سلامتی کونسل کا غير مستقل رکن منتخب ہونے پر خوش ہيں۔
جرمنی کی، سلامتی کونسل کی پچھلی رکنيت کے زمانے ميں امريکہ نے عراق کی جنگ کو بين الاقوامی قانون کے دائرے ميں جائز قرار دلانے کی کوشش کی تھی۔ اس کوشش ميں اُس کی ناکامی کی وجہ جرمنی کی طرف سے انکار اور شک بھی تھا۔
حقيقت يہ ہے کہ سلامتی کونسل کے غير مستقل رکن ممالک اُتنے لاچار نہيں ہيں جتنا کہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے۔ پانچ مستقل اور 10غير مستقل اراکين پر مشتمل 15 رکنی سلامتی کونسل ميں کسی قرارداد کو منظورکرانے کے لئے نو اراکين کی حمايت حاصل کرنا ضروری ہے۔
جرمنی کو سلامتی کونسل ميں اس لئے بھی اہميت حاصل ہے کيونکہ ايک بڑے ملک کی حيثيت سے اُس کا اقتصادی ڈھانچہ ترقی يافتہ ہے، جو اس قسم کے کاموں کے لئے ضروری ہوتا ہے۔ جرمنی سلامتی کونسل کے رکن کی حيثيت سے بعض اہم امور ميں مدد دے سکتا ہے۔ اُس نے عالمی آب و ہوا اور ماحول کے تحفظ کو اپنی رکنيت کے حصول کی مہم ميں بھی موضوع بنايا تھا اور اب وہ اس سلسلے ميں آگے بڑھ کرکام دکھا سکتا ہے۔ سن 2012 ميں جرمنی کو اپنی اہليت دکھانے کا ايک اور موقع ملے گا جسے اُس کی وزارت خارجہ بہت اہم سمجھتی ہے۔ وہ تخفيف اسلحہ اور مشرق وسطی کے تنازعے کے حل ميں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
جہاں تک ايران کے ساتھ ايٹمی تنازعے کا تعلق ہے تو جرمنی اس وقت بھی سلامتی کونسل کی پانچوں ويٹو طاقتوں کے ساتھ اس سلسلے ميں تا حال ناکام مذاکرات ميں شامل ہے۔ اب وہ اگلے دو برسوں تک کے لئے اس بارے ميں بھی سلامتی کونسل کی تمام قرار دادوں ميں اپنی رائے دے سکے گا۔
تاہم سلامتی کونسل ميں جرمنی کی مستقل نشست کی اميد باندھنا قطعی خود فريبی ہوگی کيونکہ ويٹو طاقتيں اپنی طاقت اور اثر ميں کمی کا کوئی ارادہ نہيں رکھتيں۔ لہذا جرمنی کو صرف اُسی پر ہی اکتفا کرنا ہو گا جو ممکن ہے۔
تبصرہ: کرسٹینا بیرگمن
ترجمہ: شہاب احمد صديقی
ادارت: عدنان اسحاق